( ماخوذ از : موسوعة الآداب الإسلامیة، ج 1 ص 306 ، اعداد : فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن محمد المعتاز )
ترجمہ : عرفان احمد راتھر ، طالب علم : ھیئۃ الطلاب المسلمین جموں و کشمیر MSB ، مراجعہ: ھارون رشید خواجہ ، بتاریخ : 12 اگست 2015
اللہ تعالی نے فرمایا : [ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ ] ( المائدة : 2 )
یعنی : نیکی اور پرہیزگاری ( کے کاموں ) پر ایک دوسرے کو تعاون کرو اور گناہ و دشمنی ( کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔
فرمایا ( رسول اللہ ) ﷺ نے : [ مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ ] ( مسلم : . 1728عن أبي سعید الخدري )
یعنی : جس کے پاس زائد سواری ہے وہ ( سواری ) اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس فاضل توشہ ہے وہ اس کو دے دے جس کے پاس توشہ نہیں ہے ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے بہت سی اقسام کے مال کے بارے میں اسی طرح بیان فرمایا، یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ ہم میں سے کسی کا اپنے زائد مال پر حق ہی نہیں ۔
تعاون( کرنے ) کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے : یکجہتی میں تسلسل اور صبر کرنا ، اور نیکی و پرہیزگاری ( کے کاموں ) پر معاونت کرنا ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے کہ آپس میں الفت و محبت رکھنا ، اور منظم رہنا، اور ہر انسان وہ سب کچھ(یعنی : مال ، علم ، ہنر وغیرہ ) دوسروں کے لیے مہیا رکھے جس سے اسے دوسروں پر فوقیت حاصل ہے تاکہ مشکلات ٹل جائیں، اور ہر ایک اپنا فریضہ اور اپنی ذمہ داری ادا کرے ، پس یہ چیونٹیاں اپنا گھر بنانے اور اپنے لئے خوراک کو ذخیرہ کرنے میں آپس میں معاونت کرتی ہیں ۔ اور پرندے اور چوپائے بھی اپنے کام انجام دینے میں آپس میں تعاون کرتے ہیں ، اور جمع ہوجاتے ہیں ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے کہ تنہائی ، انفرادیت اور کنارہ کشی اختیار نہ کی جائے ، اور نہ ہی من مانی اور خود غرضی کی جائے ۔
اس کےآداب میں سے ( یہ بھی ) کہ وہبی قابلیت اور صلاحیت میں فروغ دیا جائے ، شاعر نے کہا ہے :
الناس للناس من بدْوٍ و حاضرِه بعض لبعض و إن لم یشعُروا خدَمٌ
یعنی : لوگ چاہیں صحراء نشین ہوں یا شہری ہوں، وہ ایک دوسرے کے خادم ہيں اگرچہ انہیں ایسا محسوس نہ بھی ہو ۔
اس کےآداب میں سے ’’ کفالت کرنا ‘‘ ہے ، پس صاحب ثروت یتیموں ، داعیوں ، استادوں ، مسجدوں کے اماموں ، بیواوں ( وغیرہ ) کی کفالت کرتا ہے اور غریبوں و ناداروں پر خرچ کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے :
ولو أني حبیْتُ الخلد فرداً لما أحببت بالخلد انفرادا
یعنی : اگر مجھے اکیلے ہی ہمیشگی سے نوازا جاتا تو میں ہمیشگی سے الگ ہوجانا( کبھی ) پسند نہ کرتا ۔
فلا هطلَتْ علي و لا بأرض سحائبُ لیس تنتظم البلادا
یعنی : پس مجھ پر یا (میری)زمین پر وہ بادل نہیں برسے جو شہروں کو نہ پروئے ۔
تعاون کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرنا ، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو ۔ پس آپ کی ظالم کی مدد اس طرح ہوگی کہ اس کو ظلم کرنے سے روکا جائے ،اور مظلوم کی مدد اس طرح ہوگی کہ اس سے ظلم کو ہٹایا جائے اور دور کیا جائے ۔ پس مسلمان ( آپس میں ) بھائی بھائی ہیں ، محبت کرنے والے ہیں ، تعاون کرنے والے ہیں ۔ ان کے درمیان نہ رنگ نہ جنس ، نہ مال نہ وطن فرق کردیتا ہے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : [ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ] ( التوبة : 71( یعنی : مومن مردآپس میں اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ( یعنی مرد مردوں کے اور عورتیں عورتوں کی ) ، وہ ایک دوسرے کو اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور غلط کاموں سے منع ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی فرمانداری کرتے ہیں ، ان ہی لوگوں کو عنقریب اللہ تعالی اپنی رحمت سے نوازے گا ، بیشک اللہ تعالیٰ غالب ہے ، حکمت والا ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : [ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ] ( الحجرات : 10 (
یعنی : یقینا مومن ( آپس میں ) بھائی بھائی ہیں ۔ اور یقینا نبی ﷺ نے مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا ، تو انصار نے مہاجرین میں اپنا مال بانٹ دیا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : [ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ] ( الحشر : 9 (
یعنی : جنہوں نے ( اس ) گھر میں ( یعنی مدینہ منورہ میں ) اور ایمان ( لانے ) میں ان ( مہاجرین ) سے پہلے جگہ بنالی ہے ، وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور ( مہاجرین کو ) جو کچھ دے دیتے ہیں اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے اور ( انہیں ) اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں ، اگرچہ خود کو ( سخت ) حاجت ہو ۔ اور جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچائے گئے ، وہی کامیاب ( لوگ ) ہیں ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے کہ خیراتی جمعیتیں اور اسلامی ادارے ہمارے مسلمان بھائیوں کی مشکلات دور کرنے کے لیے ، اور ان کی حاجات پوری کرنے اور ان کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اور انہیں دین ( اسلام ) کی طرف بلانے کے لیے قائم کیے جائیں ، تاکہ مسلمان ایک جسم کی طرح رہیں ۔ جب اس میں ایک عضو کو تکلیف ہو ،تو اس کے لئے پورا جسم بیدار ( رہتا ہے ) اور بخار ( کی حالت ) میں رہتا ہے ۔ پس سب سے پسندیدہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : [ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ] ( الکھف : 95 (
یعنی : تم صرف طاقت سے میری مدد کرو ، میں تمہارے اور ان کے درمیان ( مضبوط ) دیوار بناتا ہوں ۔
یہ آیت ذو القرنین کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عظیم طاقت عطا کی تھی ۔ لیکن اس کے طاقت کے باوجود وہ اس قوم کے تعاون سے بے پرواہ نہ تھا ۔
فرمایا ( رسول اللہ ) ﷺ نے [ المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ] وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ۔ ( البخاری : 6026 و مسلم : 2585 )
یعنی : مومن مومن کے لئے ایک عمارت کی طرح ہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط رکھتا ہے اور ( راوی کہتا ہے کہ نبی ﷺ نے) اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈال دیں ۔
اور فرمایا : [ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ] ( مسلم : 2586 )
یعنی : مومنوں کی مثال آپس میں محبت کرنے ، رحم کرنے اور شفقت کرنے میں ایک جسم جیسی ہے ، جب کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے ، تو سارا جسم اس کے لئے بے قرار رہتا ہے بیدار اور بخار ( کی وجہ ) سے ۔
اور فرمایا : [ المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ ] ( البخاري : 2442 ، مسلم : 2580 )
یعنی : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو رسوا کرتاہے ۔ جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے ، تواللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے ۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی پریشانیوں میں ایک پریشانی دور کردے گا ، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا ۔
اور فرمایا : [ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ , وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ , أَوْ تَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً , أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا , أَوْ تَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا، وَلَئِنْ أَمْشِي مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ شَهْرًا فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ , وَمَنْ كَفَّ غَضَبَهُ سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ , وَمَنْ كَظَمَ غَيْظَهُ وَلَوْ شَاءَ أَنْ يُمْضِيَهُ أَمْضَاهُ؛ مَلَأَ اللَّهُ قَلْبَهُ رَجَاءً يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَمَنْ مَشَى مَعَ أَخِيهِ فِي حَاجَةٍ حَتَّى يُثَبِّتَهَا لَهُ ثَبَّتَ اللَّهُ قَدَمَهُ يَوْمَ تَزُولُ الْأَقْدَامُ ] ( الطبراني في الکبیر : 1346 ، الصحیحۃ : 906 )
یعنی : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے ہوں ، اور عملوں میں سب سے پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ خوشی ہے جسے تو کسی مسلمان کو پہنچائے ، یا تو اس سے کوئی مشکل دور کردے ، یا اس کا قرض ادا کردے، یا اس کی بھوک مٹادے، اور اگر میں اپنے بھائی کے ساتھ اس کی حاجت کے لئے ساتھ چلوں تو یہ میرے نزدیک اس سےزیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اس مسجد میں ، مسجد مدینہ میں ایک مہینہ اعتکاف کروں ، اور جس نے اپنی شرارت روک لی تو اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی کرے گا ، اور جس نے اپنا ایسا غصہ پی لیا جسے اگر وہ جاہتا تو انجام دیتا ، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل قیامت کے دن امید سے بھر دے گا ، اور جو اپنے بھائی کے ساتھ اس کی حاجت پوری کے لئے چل پڑا یہاں تک کہ وہ پوری ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس دن اپنے قدموں پر ثابت قدم رکھے گا جس دن قدم ڈھگمگا جائیں گے( یعنی قیامت کے دن )۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان دوری ختم کردے اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دے ، اور انہیں تعاون ( کرنے کی خصلت ) اور اخلاص سے نوازیں ۔ بے شک وہ سننے والا ہے ، دعاوں کی استجابت کرنے والا ہے ۔