سوال و جواب

جوابات از: ھارون رشيد خواجہ (فاضل: 1998 سرينگر کشمير ۔۔۔ بی اے بی ايڈ: 2006 رياض سعودی عرب )
سوال 22: اگر کسی جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہوتو کیا اس کی قربانی جائز ہے ؟
جواب:

سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی جائز ہے بشرطیہ کہ سینگ ٹوٹنے سے سر کا گوشت خراب نہ ہوا ہو۔ بعض نے کہا کہ سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے جیسے:

ابو داؤد نے اپنی سند سے قتادہ سے بروایت جُرَيّ بن کُلَیب عن علي رضي اللہ عنہ روایت کی :

(( أنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ و سلم نَھَی أَنْ یُضَحَّی بِعَضْبَاءَ الْأُذُنِ وَ الْقَرْنِ ))

’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کان اور سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کو قربان کرنے سے منع فرمایا ہے ‘‘ ۔

اس حدیث کی سند یوں ہے :

حدثنا مسلم بن إبراھیم حدثنا ھشام بن أبي عبد اللہ الدستُواءي و یقال لہ ھشام بن سَنبر عن قتادۃ عن جُرَی بن کلیب عن علي ...

اس میں ایک راوی جری بن کلیب ہے وہ لین الحدیث .

امام البانی نے کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے ملاحظہ ہو : الإرواء ۱۱۴۹

چونکہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یہ کہ سینگ کھایا جانے والا عضو بھی نہیں ہے، لہذا اگر جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو اور اس سے سر کا گوشت خراب نہ ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے ، البتہ کان کا سالم ہونا لازمی ہے کیوں کہ ایک حدیث میں آیا ہے :

علی رضی اللہ عنہ نے کہا:

(( أَمَرَنَا رسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و سلم أنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْأُذُنَیْنِ )) ( أبو داود / ۲۸۰۴ )

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم کیا کہ ہم آنکھ اور دو کان اچھی طرح سے دیکھیں ‘‘

اس حدیث کے اس حصہ کو امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے البتہ اس حدیث کے دوسرے حصہ ’’ وَلاَ نُضَحِّيَ بِعَوْرَاءٍ وَلَا مُقَابَلَۃٍ وَ لاَ مُدَابَرَۃٍ وَلَا خَرْقَاءَ وَلَا شَرْقَاءَ ‘‘ کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

چونکہ حدیث میں آنکھ اورکان کو اچھی طرح دیکھنے کا حکم ہے لہذا ان دونوں کا سالم ہونا لازمی ہے .

البتہ اگر کوئی معمولی عیب ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

ھذا ما عندي و اللہ تعالی أعلم بالصواب، وھو الموفق إلی سواء السبیل

سوال 21: کیا بھینس کی قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:

: قربانی کے لئے ضروری ہے کہ قربانی کا جانور پالتوچوپائیوں میں سے ہو اللہ کا ارشاد ہے :

( وَلِکُلِّ أمَّۃٍ جَعَلنَا مَنسَکًا لِیَذکُرُوا اسْمُ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَھُم مِن بَھِیمَۃِ الأنْعَامِ ) ( الحج / 34)

ترجمہ : ’’ اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں ، تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں ‘‘ ۔

ایک اصول قاعدہ ہے کہ تمام عبادات توقیفی ہیں یعنی ہر عبادت کے کرنے پر قرآن یا سنت سے دلیل ہونی چاہیے ، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اونٹ ، گائے اور بھیڑ کی قربانی کی ہے لہذا صرف انہی جانور کی قربانی درست ہے ۔

البتہ علماء نے بھینس کو زکاۃ کے ابواب میں گائے کے ساتھ جوڑا ہے ، اور کہتے ہیں کہ یہ گائے ہی کی ایک قسم ہے ، لہذا یہ کہنا برا نہ ہوگا کہ بھینس کی قربانی جائز ہے ، البتہ افضل نہیں ہے کیوں کہ نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی قربانی کی ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے ایسا ثابت ہے ۔

ھذا ما عندي و اللہ تعالی أعلم بالصواب، وھو الموفق إلی سواء السبیل

سوال 20: قربانی کے فضائل کے بارے میں کچھ مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ یہ قیامت کے دن قربانی کرنے والی کی سواری ہے لہذا اس کی تعظیم کرنا سنت ہے کیوں کہ یہ حدیث میں بھی آیا ہے ۔ اس کے بارے میں وضاحت مطلوب ہے ؟
جواب:

قربانی کے احکام کے بارے میں ڈاکٹر حسام الدین فعانہ کی کتاب کا ترجمہ ایم ایس بی نے شائع کیا ہے ، سوال میں مذکور مسئلہ کے بارے میں اس میں اچھی تحقیق درج ہے لہذا اس ترجمہ کی عبارت نقل کرتا ہوں :

اور وہ حدیث جسے امام ابن العربی المالکی نے ذکر کیا ہے میں نے اسے اس مبحث کے شروع میں ذکر کیا وہ مختلف الفاظ سے مروی ہے ، ان میں سے چند یہ ہیں :

(( عَظِّمُوا ضَحَایَاکُم فَإنَّھَا عَلَی الصِّرَاطِ مَطَایَاکُمْ ))

’’ قربانی کے جانور کی تعظیم کر لو یہ پل صراط پر تمہاری سواری ہے ‘‘

ایک اور لفظ میں ہے:

(( اسْتَفْرِھُوا ضَحَایَاکُمْ فَانَّھَامَطَایَاکُمْ عَلَی الصِّرَاطِ ))

’’ قربانی کیلئے عمدہ جانور منتخب کر لو بیشک یہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہیں ‘‘

اور ان کے علاوہ اور بھی کئی الفاظ ہیں ۔

یہ مختلف الفاظ والی حدیث رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے بلکہ ’’ ضعیف جداً ‘‘ ہے۔

حافظ ابن حجر نے کہا : ’’ میں نے اسے(کہیں) نہیں دیکھا ہے ‘‘ اور ابن صلاح کا یہ قول نقل کیا :

’’یہ حدیث غیر معروف ہے اور میرے علم کے مطابق یہ ثابت نہیں ہے ‘‘ پھر کہا : صاحبِ مسند الفردوس نے اسے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی ’’ ضعیف جداً ‘‘ ہے ( التلخیص الحبیر ۴/ ۱۳۸ )

اور شیخ العجلونی نے کہا : یہ حدیث ’’ ضعیف جداً ‘‘ ہے ۔ (کشف الخفاء ۱/ ۱۲۱)

اور شیخ البانی نے حدیث ’’ قربانی کی تعظیم کرو یہ( پل) صراط پر تمہاری سواری ہے ‘‘ کے بارے میں کہا : لا أصل لہ بھذا اللفظ ( ان الفاظ کے ساتھ ا س کی کوئی بنیاد نہیں ہے ) ( السلسلۃ الضعیفۃ ۱/ ۱۰۲ حدیث ۷۴)

اور شیخ البانی نے ایک اور جگہ پر کہا: حدیث ’’ قربانی کیلئے عمدہ جانور منتخب کرو یہ صراط پر تمہاری سواری ہے ‘‘ ’’ ضعیف جداً ‘‘ ہے ۔ ( السلسلۃ الضعیفۃ ۳/ ۴۱۱ حدیث رقم ۱۲۵۵)

و اللہ تعالی أعلم بالصواب

سوال 19: عشر ذی الحجۃ میں بال کاٹنے یا ناخن تراشنے کا کیا حکم ہے ؟ اگر یہ درست نہیں ہے تو کیا گھر کے سب افراد کو اجتناب کرنا ہے یا صرف صاحب خانہ کو ؟
جواب:

عشر ذی الحجۃ میں جسم کے کسی بھی حصہ سے بال کاٹنے اور ناخن تراشنے سے حدیث میں ممانعت آئی ہے:

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

(( إ ذا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَ أرَادَ أحَدُکُمْ أنْ یُضَحِّيَ ، فَلا یَمَسَّ مِنْ شَعَرِہِ وَلا بَشَرِہِ شَیئاً))

ترجمہ : ’’ جب عشرہ ( ذی ا لحجہ) داخل ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور کھال میں سے کچھ بھی نہ کاٹے ‘‘ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے ۔

اس حدیث کو مد نظر رکھ کر علماء کے صحیح قول کے مطابق بال یا کھال کاٹنے یا ناخن تراشنے سے اجتناب ضروری ہے اور اس کا ارتکاب گناہ ہے ، کیوں کہ اصولی قاعدہ کے مطابق جب قرآن اور سنت میں منع ہو تو اس کا ارتکاب گناہ ہے ۔

ھذا ما عندي و اللہ تعالی أعلم بالصواب، وھو ولي التوفیق

سوال 18: میں نے دیکھا ہے کہ کچھ مسلمان لوگ ملنے کے وقت کچھ کے سامنے جھکتے ہیں ، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ایسا کیوں کرتے ہو تو کہتے ہیں کہ بزرگوں کے ساتھ ایسا کرنا جائز ہے ۔ اب میرا سوال یہ کہ کیا ایسا کرنا ( یعنی کسی کے سامنے سلام کے وقت جھکنا ) جائز ہے یا نہیں ۔
جواب:

کسی بھی انسان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کے بغیر کسی کے سامنے جھک جائے، ایسا کرنا صریح شرک ہے جو کبائر میں سب سے بڑا گناہ ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ہے، جیسا کہ انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! الرجل منا یلقی اخاہ او صدیقہ ا ینحني لہ ؟ قال : " لا " ۔۔۔ ( ترمذي / 2728 / حسنہ الامام الالباني )یعنی: اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی یا اپنے دوست سے ملتا ہے کیا وہ اس کے لئے جھک جائے ؟ تو ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا : نہیں ۔

لہذا سلام کے وقت کسی کے سامنے جھکنا ہرگز جائز نہیں ہے ، بعض لوگ اس جھکنے میں اتنا غلو کرتے ہيں کہ ان کے اس جھکنے اور نماز جیسے سجدہ میں تھوڑا سا فرق رہتا ہے ، ایک صاحب سے جب اعتراض کیا گیا کہ تم اس طرح غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کے مرتکب ہوجاتے ہوتو جوابا کہاکہ : اگر نماز کے سجدے میں دو یا چار انگلیوں جیسی مسافت زمین سے اوپر سر رہے تو کیاوہ سجدہ ہوگا یا نہیں ؟ جب اسے کہا گیا : نہیں ، تو کہا جب وہ سجدہ نہیں تو ہمارا یہ جھکنا سجدہ کیسے کہلائے گا؟ ۔

اس صاحب کی یہ بات بلکل باطل ہے کیوں کہ سجدہ کی کیفیات مختلف ہوتی ہیں ، کائنات میں تمام جمادات ، درخت وغیرہ اللہ تعالی کے لئے سجدہ کرتے ہیں تو ان کا سجدہ بالکل انسانوں سے مختلف ہے اسی طرح جو سجدہ نماز میں مخصوص ہے ضروری نہیں ہے کہ صرف اسی کو سجدہ کہا جائے گا۔ اگر کوئی ایسا بیمار شخص ہے جو نماز کے سجدہ میں اپنا سر زمین پر رکھنے سے عاجز ہو تو جب وہ صرف تھوڑا جھک کر اشارہ کرے تو وہ ضرور سجدہ کہلائے گاحالاں کہ اس کا سر زمین سے بہت اوپر رہتا ہے ۔ اور اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم اپنے معبود ( غیر اللہ ) کے سامنے اتنا سجدہ کرے کہ دو یا چار انگلیوں ہی کے برابر اس کا سر زمین سے اوپر رہے گا تو کیا یہ غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنا کہلائے گا یا نہيں ، جوابا ہرایک کو کہنا پڑے گا : ہاں ۔ ٹھیک اسی طرح جب کوئی کسی کے سامنے سجدے کی طرح یا اس کے قریب قریب جھک جائے تو وہ بھی غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنا کہلائے گا جو کہ صرح شرک ہے ۔

ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب

سوال 17: کچھ لوگ نماز تراویح میں قرآن کریم پورے مہینے میں مکمل کرتے ہیں پھر آخری دن آخری رکعت میں دعا ختم القرآن کرتے ہیں جیسا کہ حرمین میں ہوتا ہے۔ کیا ایسا کرنا کسی حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ۔ شکریہ
جواب:

جو بھی نماز ہو وہ عبادات ہے لہذا اس کا وقت، اس کا طریقہ اور اس کی رکعات سب کچھ قرآن یا سنت سے ثابت ہونا لازمی ہے اور جو کچھ ثابت ہوجائے اسی پر اکتفا بھی کرنا لازمی ہے، خود بغیر کسی دلیل کے اس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ کرنا جائز نہیں ہے اسی ضمن میں نماز تراویح ہے ، کسی بھی مرفوع روایت سے یہ ثابت نہيں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تراویح میں دعا ختم قرآن پڑھا ہو ، نہ ہی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ایسا ثابت ہے ۔

البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابن ابی شیبہ کی المصنف / کتاب فضائل القرآن / 1078 (بحوالہ الشرح الممتع / ج 4 / ص 42 ) میں آیا ہے کہ جب وہ قرآن مکمل کرتے تھے تو اپنے اہل و عیال کو جمع کرکے دعا ختم قرآن پڑھتے تھے۔

ایسا اگر ان سے صحیح ثابت بھی ہوجائے تب بھی اس سے تراویح میں پڑھنے کے جواز کا استدلال کرنا ہرگز درست نہيں ہوگا، کیوں کہ کسی عبادت کو کسی خاص وقت یا صورت ( شکل )کو بغیر دلیل مخصوص کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔ کیوں کہ پھرکسی ایسی چیز کو جو نماز سے باہر سنت ہو اسے نماز میں داخل کرنے کادروازہ کھل جائے گا، اور اس طرح سے نماز کی شکل و صورت ہی بگڑ جائے گی ۔

علامہ شیخ صالح عثیمین رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ نماز تراویح میں دعا ختم قرآن پڑھنے کی کوئی اصل ( دلیل ) موجود نہيں ہے، لہذا جب تک نماز میں اسے پڑھنے کی شرعی دلیل مل نہ جائے تب تک ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ (ملاحظہ ہو الشرح الممتع / ج 4 / ص 42 )

ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب

سوال 16: عید کے موقعہ پر بچوں کو عیدی ( کچھ روپے بطور ہدیہ ) دینا کیسا ہے ۔ کچھ لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں۔ کیا یہ بدعت ہے یا نہیں
جواب:

اپنے اہل و عیال کو خوش کرنا شرعا مطلوب ( اچھا ) کام ہے ۔ عید کے موقعہ پر یا کسی اور خوشی کے موقعہ پربچوں کو اگر کچھ روپے " عیدی " دیے جائيں جس سے وہ خوش ہوں گے بدعت نہيں کہلا سکتا ہے کیوں کہ یہ معاملات کے زمرے میں آتا ہے جس میں وہ سب کچھ اصولی طور جائز ہے جس کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو۔ چونکہ اس کے بارے میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے لہذا یہ جائز ہے، بدعت نہیں ہے ۔ سعودی دائمی فتوی کمیٹی نے بھی عیدی دینے کو جائز قرار دیا ہے ملاحظہ ہو: فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج 26 ص 347 ۔

البتہ اس بات کا دھیان رکھنا والدین اور دیگر ذمہ داروں پر لازمی ہے کہ بچے ان روپیوں کو اسراف اور دیگر غیر شرعی امور میں خرچ نہ کریں ، جیسا کہ عصر حاضر میں دیکھا جاتا ہے کہ بچے پٹاخوں پر بے دریغ مال خرچ کرتے ہیں۔ غیر شرعی افعال سے بچوں کو روکنا لازمی ہے ۔

ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب

سوال 15: موبائل وغیرہ میں ریکاڈنگ میں کبھی کوئی دعا کرتا ہے جسے ہم سنتے ہیں تو کیا اس وقت ہم آمین کرسکتے ہیں یا نہیں۔
جواب:

دعا کرنا اور آمین کہنا عبادت ہے لہذا اس کا طریقہ شرع سے ثابت ہونا چاہیے چونکہ شریعت میں حاضر دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہنا ثابت ہے لہذا کسی ریکاڈنگ کے ذریعہ دعا کو سننے کے وقت آمین کہنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ دعا کرنے والا اس وقت یہ ریکاڈنگ سننے والوں کے لئے نہیں کرتا ہے ۔

البتہ اگر کہیں پر جمع غفیر ہے لوگ دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں یا وہ مسجد کی کئی منازل میں ہیں اور دعا کرنے والے کی آواز براہ راست سامع تک نہیں پہنچتی ہے بلکہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ آواز پہنچتی ہے تو وہ بھی حاضر دعا کرنے کے زمرے میں شامل ہے لہذا ایسے موقع پر آمین کہنا درست ہے ۔

سعودی دائمی فتوی کمیٹی نے بھی ریکاڈنگ کے ذریعہ سے سنی جانی والی دعا پر آمین کہنے کو غیر مشروع کہا ہے، ملاحظہ ہو: فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج 24 ص 256

ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب

سوال 14: غیر مسلم ہمسایہ کو عید الاضحی کے موقعے پر قربانی گوشت دینا کیسا ہے ۔ کیا اچھے سلوک کی خاطر اس کو اس میں سے کچھ دینا جائز ہے یا نہیں ۔
جواب:

ہمسایہ کے ساتھ اچھے سلوک کی تعلیمات دین اسلام کے محاسن میں سے ہیں کئی احادیث میں ایسی تعلیمات دی گئيں ہیں اور ان میں مسلم اور غیر مسلم کی تمییز نہیں کی گئی ہے اور چونکہ غیر مسلم کو اسلامی اخلاقیات سے متاثر کرنے سے وہ اسلام کے قریب آسکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ مسلمان بن جائے لہذا اس کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرنا چاہیے ، اسی زمرے میں اسے قربانی کا گوشت دینا ہے ۔

ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب

سوال 13: سوال : نو مولود بچے کے کان میں اذان دینے کے بارے میں میں نے ایک حدیث فقہ الحدیث ج 1 ص 342 میں پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے : " جس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو جنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں نماز کے لیے ( کہی جانے والی ) اذان کی طرح اذان کہی " پھر مؤلف کتاب مذکور نے اس حدیث پر شیخ الباني کا حکم درج کیا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ حدیث حسن ہے تو کیا نومولود بچے کے کان میں اذان دینا سنت ہے یا نہیں ؟
جواب:

نو مولود بچے کے کان میں اذان دینا کسی بھی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہيں ہے ۔

امام البانی رحمہ اللہ نے سوال میں مذکور حدیث کو پہلے تو إرواء الغلیل میں حسن کہا تھا ،ممکن ہے کہ مؤلف فقہ الحدیث نے اس کا یہ حکم وہیں سے نقل کیا ہو، لیکن بعد میں امام البانی رحمہ اللہ نے اس کی تحسین سے رجوع کیا اور اسے اپنی شہرہ آفاق کتاب " سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ " ج 13 القسم الاول حدیث نمبر 6121 کے تحت صفحہ نمبر 272 میں ضعیف قرار دیا ہے ۔

نومولود بچے کے کان میں آذان کے بارے میں میرے ایک عزیز دوست اور ایم ایس بی کے محترم استاذ مبشر احسن وانی مدنی صاحب نے ایک کتابچہ لکھا ہے جس میں اس نے اس مسئلہ پر کافی تحقیق کی ہے لہذا مزید معلومات کی خاطر اس کی طرف رجوع کرنا ان شاء اللہ مفید رہے گا۔

ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب