ریاست جموں و کشمیر ستمبر کے شروع سے ہی ایک بہت بڑی مصیبت میں اس وقت پھنس گئی جب اچانک تباہ کن سیلابی طوفان نے اس کے اکثر شہروں اور دیہات کو لیپیٹ لیا ، کسی بھی گھر ، کارخانے ، مسجد ، مدرسہ ، کھیت ، دکان ، اور سڑک کو خراب کیے بغیر نہ چھوڑا ، بلکہ اب بھی بعض کھیتوں ، تجارتی مراکز اور دوکانوں ، گھروں ، اور تعلیمی اداروں میں موجود ہے ، اس نے یہاں زبردست تباہی مچادی ہے جس کا اندازہ مکمل طور کرنا ناممکن ہے ، سینکڑوں لوگ مر چکے ہیں ، جب کہ سینکڑوں لاپتہ ہیں ، اور لاکھوں گھر ، دکانیں اور تجارتی مراکز تباہ ہوگئے ۔
لاکھوں لوگ ریلیف کے محتاج ہیں جو مسلمان ملکوں کی طرف ان کی مدد کی امید لگائے بیٹھے ہیں ، قابل ذکر بات یہ ہے کہ متاثرین میں اکثر مسلمان ہیں ۔
لیجے وہ کچھ ابتدائی تخمینی معلومات جو اس سیلاب کے حوالے سے اب تک (29 ستمبر) حاصل ہوسکی ہیں :
1۔ پونچھ میں 26 افراد جان بحق ، 2602 مکانات مکمل طور تباہ ، 59 ہزار کنال اراضی بہہ گئی ، 202 اسکول غیر محفوظ ، 84 پل تباہ ، بجلی ڈھانچہ کو کروڑوں کا نقصان ( کشمیر عظمی / ص ۱ / بتاریخ ۱۷ ستمبر ) ۔
2 ۔ پلوامہ میں 77 ، اننت ناگ میں 100 اور کولگام میں 200 دیہات شدید طور متاثر ہوئے ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۱۸ ستمبر )۔
3 ۔ جنوبی کشمیرمیں تین گاؤں ڈہرناہ کوکرناگ ، آری گتنو اور چھم گنڈ مکمل طور پر ختم ہوچکے ہیں ، مکان ، زرعی زمین تباہ ہوئیں ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۱۸ ستمبر)
4 ۔ شمالی کشمیر کے سرحدی ضلع کپوارہ میں سیلاب سے قریب 50 کروڑ املاک کی جائیداد تباہ ہوئی ، ہزاروں کنال پر مشتمل اراضی کو نقصان پہنچ چکا ہے ، 15 پلوں کو نقصان پہنچ چکا ہے ( کشمیر عظمی / ص۲ / بتاریخ ۱۹ ستمبر ) ۔
5 ۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق شہر سرینگر کے تباہ حال بازاروں میں متاثرہ دکانوں کی تعداد 10000 سے زائد ہے جن میں موجود کروڑوں اربوں روپے کا مال تباہ ہوگیا ( کشمیر عظمی / ص ۱ / بتاریخ ۲۰ ستمبر ) ۔
6 ۔ پلوامہ ضلع میں 233 دیہات میں تباہی مچ گئی 51170 رہائشی ڈھانچوں کو نقصان ، 25 رابطہ پل ، 131 سڑکیں ، 162 واٹر سپلائی سکیمیں بھی تباہ ، 7 لاکھ 50 کنال باغاتی و زرعی اراضی متاثر (ضلع انتظامیہ بحوالہ کشمیر عظمی / ص ۱ / بتاریخ ۲۱ ستمبر ) ۔
7 ۔ پانپور ریفلنگ اسٹیشن ناکارہ ، 14 ہزار سیلنڈر بہہ گئے ، پیٹرولیم مصنوعات کی قلت 3 ماہ تک برقرار رہنے کا امکان ہے ( کشمیر عظمی / ص ۱ / بتاریخ ۲۱ ستمبر ) ۔
8 ۔ میوہ صنعت کو 2500 کروڑ روپے کا نقصان ، 60 فیصد میوہ باغات تباہ ، 400 کروڑ روپے مالی معاونت کی ضرورت ( کشمیر عظمی / ص ۱ / بتاریخ ۲۱ ستمبر ) ۔
9 ۔ وادی کے پانچ بڑے اسپتال مثاثر ہوئے : SMHS اسپتال ، لل دید اسپتال ، ڈینٹل کالج ، جی بی پنت اسپتال ، بون اینڈ جوائنٹ اسپتال ، شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سانئنسز(SKIMS)بمنہ سرینگر ، 500 کروڑ کی مشینری تباہ ہوئی ہے ( کشمیر عظمی / ص ۱ / بتاریخ ۲۳ ستمبر )۔
10 ۔ 550 واٹر سپلائی سکیمیں ناکارہ ہوگئیں جن میں 533 دیہی سکیمیں شامل ہیں ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۳ ستمبر )۔
11 ۔ فروٹ منڈی پارمپورہ میں 60 کروڑ کا میوہ تباہ ، 550 دوکانوں کو نقصان ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۴ ستمبر ) ۔
12۔ محکمہ بجلی کو 3 ارب کا نقصان ہوا، 40 رسیونگ سٹیشن ، 3000 ٹراسفارمر اور 20 ہزار کھمبے تباہ ، مکمل بحالی میں ایک ماہ کا عرصہ درکارہے ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۴ ستمبر )۔
13 ۔ 5 ہزار سے زائد نجی گاڑیاں تباہ ، دوبارہ سڑکوں پر دوڑانے کے لیے 15 کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۴ ستمبر )۔
14 ۔ وادی میں 3 لاکھ ہیکٹر اراضی پر پھیلی کھڑی فصلیں تباہ ، زرعی شعبہ کو 37 ارب کا نقصان ، 3811 ہیکٹر زرعی اراضی ناقابل کاشت بن گئی ، سینکڑوں کنال سیلابی پانی میں بہہ گئے ، محکمہ کو 25 کروڑ کا نقصان ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۵ ستمبر ) ۔
15 ۔ بڈگام ضلع میں 154 گاؤں کے 3 لاکھ لوگ متاثر ، 12508 مکانات کو نقصان ، 5 افراد لقمہ اجل ،97 زخمی ، 99 واٹر سپلائی سکیمیں ، 125 بجلی ٹرانسفارمر اور 307 سڑکیں بھی تباہ ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۵ ستمبر )۔
16 ۔ اسلام آباد میں سیلاب سے 976 مکان منہدم، 6 افراد لقمہ اجل ، 32 دکانات اور 437 گاؤخانوں کو بھی نقصان ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۶ ستمبر )۔
17 ۔ سیلابی قہر سے مواصلاتی شعبہ بری طرح متاثر ، BSNL کو 40 ارب کا نقصان ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۶ ستمبر )۔
18 ۔ بانڈی پورہ میں 129 سکولی عمارات کو نقصان 70 فیصد بچے مسلسل تعلیم سے محروم ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۶ ستمبر )۔
19 ۔ بارہمولہ میں 538 دیہات کی 1.6 لاکھ آبادی متاثر ، 263 واٹر سپلائی سکیمیں اور 122 تعلیمی ادارے بھی بتاہ ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۶ ستمبر )۔
20 ۔ تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں شہر سرینگر میں ڈیڑھ ہزار رہائشی مکانوں کو نقصان پہنچا ، 650 کے قریب رہائشی مکان مکمل طور ڈہہ گئے ہیں ( آفتاب / ص ۴ / بتاریخ ۲۷ ستمبر )۔
21 ۔ ڈل کے ہاؤس بورٹ بھی محفوظ نہ رہ سکے ، 15 مکمل طور تباہ ، 850 کو نقصان ، 300 ڈونگے بھی متاثر ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۷ ستمبر ) ۔
22 ۔ اقبال سبزی منڈی کو کم و بیش 20 کروڑ روپے کا نقصان ( کشمیر عظمی / ص۲ / بتاریخ ۲۷ ستمبر )۔
23 ۔ ریاست میں 1400 آنگن واڑی سینٹر تباہ ، چائلڈ ویلفیئر سکیم کو 9 کروڑ روپے کا نقصان ( کشمیر عظمی / ص۳ / بتاریخ ۲۷ ستمبر )۔
24 ۔ محکمہ تعمیرات عامہ کو 6 ارب روپے کا نقصان 500 پل اور 1696 کلو میٹر رابطہ سڑکیں تباہ ( کشمیر عظمی / ص۳ / بتاریخ ۲۸ ستمبر )۔
25 ۔ انڈسٹیریل اسٹیٹ کھنموہ کو 100 کروڑ روپے کا نقصان ( کشمیر عظمی / ص۳ / بتاریخ ۲۸ ستمبر )۔
26 ۔ اسلام آباد قصبہ میں تجارتی شعبہ کو 1 ارب روپے کا نقصان ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ۲۸ ستمبر )۔
27 ۔ کولگام میں 273 گاؤں کے 3695 مکانات اور 105 سکولی عمارتوں کو نقصان ، 9 افراد لقمہ اجل ، 210500 میوہ باغات اور 64200کنال زرعی اراضی بھی تباہ ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ۲۹ ستمبر )۔
28 ۔ ضلع بانڈی پورہ میں 123 گاؤں متاثر ، 40 ہزار تعمیراتی ڈھانچوں کو نقصان ، 6 افراد لقمہ اجل ، 57 زخمی ، 69کلومیٹر سڑکیں اور 27 پل ڈھہ گئے ( کشمیر عظمی / ص۱ / بتاریخ ۲۹ ستمبر )۔
29 ۔ شوپیاں ضلع میں میوہ باغات کو ایک سو کروڑ کا نقصان ، بارہمولہ میں سیلاب سے ساڑھے پانچ سو دیہات متاثر ( آفتاب / ص۱ / بتاریخ۲۹ ستمبر)۔
30 ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر میں تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں 3 لاکھ 75 ہزار عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے 12 لاکھ کنبے متاثر، وادی کشمیر میں 2 لاکھ 70 ہزار عمارتوں ، دکانوں کو نقصان پہنچا ہے ، شہر سرینگر میں ایک لاکھ کے قریب عمارتیں اور ڈھانچے برباد ہوئے (آفتاب / ص۲ / بتاریخ۲۹ ستمبر )۔
31 ۔ میڈیا شعبے کو پچاس کروڑ روپے کا نقصان ( آفتاب / ص۴ / بتاریخ۲۹ ستمبر )۔
32 ۔ باز آباد کاری کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے درکار ، 3 لاکھ 50 ہزار ڈھانچے تباہ ، 281 انسانی جانیں تلف ، 29 افراد لاپتہ ، 43 ہزار جانوروں کی ہلاکت ، 12 لاکھ 5 ہزار کنبے متاثر ، 5 ہزار 600 سے زائد بستیوں میں پانی داخل ہونے کاسرکار کا اعتراف ( آفتاب / ص۱ / بتاریخ۳۰ ستمبر )۔
33 ۔ حالیہ سیلاب سے وادی میں دھان کی فصل کو 70 فیصد اور سیب کی فصل کو 85 فیصد نقصان ( آفتاب / ص۲ / بتاریخ۳۰ ستمبر )۔
34 ۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ دریائے جہلم سے 7 ستمبر کو ایک لاکھ 40 ہزار کیوزک پانی خارج کیا گیا ، گذشتہ 112 سال کے دوران ایسا کبھی نہیں ہوا ( روز نامہ منصف ، حیدرآباد/ ص۳ / بتاریخ۳۰ ستمبر )۔