تحریر : ھارون رشید خواجہ ( مدیر مسلم اسٹوڈنٹس بورڈ MSB )
کچھ سال قبل تک کشمیر کےفقہی مسلکی حالات بہت حد تک پر امن تھے ، ہر فقہی مسلک کے لوگ اپنے مسلک پر عمل پیرا تھے ، ہر ایک شخص اپنے مسلک کی دعوت وتعلیم میں مشغول تھا ۔ لیکن چندسال قبل سے ایک ایسی ہوا شروع ہوئی جس میں فقہی مسلکی مناظرہ بازی کا چیلنج ہے ، ایک طرف سے بات بات پر مناظرہ کا چیلنج دیا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب سے اسے بالکل قبول ہی نہیں کیا جاتا ہے ۔ میں یہاں پر مناظرہ کے چیلنج دینے والوں کے مقاصد پر روشنی ڈالنا نہیں چاہتا ہوں کہ کیا وہ امت اسلامیہ اور خصوصا کشمیری مسلمانوں کے لیے مخلص ہیں یا کسی اور کے ایجنٹ ہیں ؟ اسی طرح جنہیں چیلنج مل جاتا ہے وہ اس کو کیوں مسترد کرتے ہيں ، کیا یہ ان کی مجبوری ہے یا وہ امت اسلامیہ اور خصوصا کشمیری مسلمانوں کے لیے مخلص ہیں؟ ان باتوں پر میں یہاں روشنی ڈال کر مناظرہ بازی کی ہوا اور زیادہ تیز کرنا نہیں چاہتا ہوں ۔
یہاں پر میں اس بات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کہ مخلص مسلمان اہل دانش اس پر غور و فکر کریں کہ جب مناظرہ ہوجائے گا تو اس کا فائدہ کس کو ملے گا :
1۔ کیا دونوں مناظرہ کرنے والوں کو ،یا ان میں سےایک کو، یا کسی کو بھی نہيں ؟
2۔ کیا عوام کو جو مناظرہ کا مشاہدہ کریں گے یا وہ ایک دوسرے کے گریبان پر مضبوط گرفت جاری رکھیں گے ؟
3 ۔ کیا کسی تیسرے کو فائدہ پہنچے گا ؟ اور وہ تیسرا کون ہوسکتا ہے ؟
4 ۔ اس بات پر خصوصا غور کیا جائے کہ جن حالات سے کشمیری مسلمان گزر رہے ہیں تو کیا مناظرہ بازی سے:
ا۔ کشمیری مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا ؟ اگر ہاں تو کس طرح کا ؟
ب۔ یاکشمیری مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا ؟ اگر نہیں تو کیسے ؟
میں آنے والے ان صفحات میں ان امور پر غور و فکر کرنے میں آسانی فراہم کرنے کی خاطر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ مخلص کشمیر ی مسلمان ان امور پر غور کرکے اپنے لیے اچھا راستہ اختیار کرسکے ۔
عام انسان کس طرح دو مناظرہ کرنے والوں کے حق کو پہچان سکتا ہے ؟
ا ۔ اگر وہ ان کے دلائل سن کر حق کےتعین کا فیصلہ کرسکتا ہے تو پھر کتابیں پڑھ کر وہ اس طرح فیصلہ کیوں نہیں کرتا ہے تاکہ مناظرہ کی نوبت ہی نہ آئے ۔
ب ۔ اگر وہ ان کے دلائل سن کر حق کے تعین کا فیصلہ نہیں کرسکتا ہے تو مناظرہ کا مقصد فوت ہوگيا ۔ جب کہ مناظرہ کرنے کے قائلین یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ لوگ دونوں مناظرہ کرنے والوں کی بات سن کر فیصلہ کرلیں گے ۔یہ ایسی بات ہے کہ جب دو وکیل کسی مسئلہ پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں تو کیا فیصلہ عوام کرتی ہے یا کوئی ماہر قاضی ؟
کیا جو مناظرہ میں بروقت جواب نہ دے سکے ، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حق پر نہیں ہے ؟
ا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ جب دو شخص مناظرہ کرتے ہوں تو یہ دو افراد ہیں نہ کہ دو مسلک ہیں ۔ اگرچہ یہ دو مسلکوں سے وابسطہ ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ اگر ان دو میں سے کوئی خاموش ہوجائے تو یہ اس کے مسلک کی خاموشی ہے، کیوں کہ یہ سب ان دو افراد کی ذاتی صلاحیت ، معلومات کی مقدار، جواب دینے پر مہارت وغیرہ پر منحصر رہتا ہے۔ کبھی کوئی مناظر جواب جانتا بھی ہے لیکن بروقت ذہن میں نہیں آتا ہے ۔جب کہ اس کے مسلک کے دوسرے لوگ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔
ب ۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ ایک مناظرہ کرنے کے بعد دوسرا جنم لیتا ہے پھر تیسرا پھر نہ ختم ہونے والا سلسلہ ۔
کیا یہ ضروری ہے کہ عالم ہر سوال کا جواب دے سکے ؟
یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہر عالم ہر مسئلہ کا جواب نہیں دے سکتا ہے ، آج تک یہ ثابت نہیں کیا جاسکا ہے کہ کوئی عالم سب کے سب دینی علوم میں تخصص (اسپیشلسٹ) رہا ہو ۔ عصر حاضر میں ایک عجیب ہوا شروع ہوئی ہے خاص کر یہاں کشمیر میں ، کہ لوگ چاہتے ہیں کہ جس طرح کمپیوٹر پر المکتبۃ الشاملۃ میں کسی بھی مسئلہ پر کلک کرنے سے وہ سامنے آجاتا ہے تو اسی طرح سے جس عالم سے مسئلہ پوچھا جائے اس سے بھی اسی طرح کا جواب ملنا چاہے، ورنہ وہ عالم نہیں مانا جائے گا ! کیا دنیا میں آج تک المکتبۃ الشاملۃ جنتی معلومات کو زبانی یاد رکھنے والاکوئی عالم دین آیا ہے ؟ ! ہرگز نہیں ۔ اس بارے میں چند علماءکرام کے فرمودات درج کرتا ہوں :
1۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : " مَنْ أَفْتَى النَّاسَ فِي كُلِّ مَا يَسْتَفْتُونَهُ فَهُوَ مَجْنُونٌ" (الفقيه والمتفقه للخطیب البغدادي / 1190// المدخل إلى السنن الكبرى للبیھقي / 652 // فتاوي ابن الصلاح / ص 9 // سنن الدارمي / 171)
یعنی : جو شخص ہر اس کے بارے میں فتوی دے جو اس سے فتوی دریافت کیا جائے تو وہ پاگل ہے ۔
2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ نے کہا : " مَنْ أَفْتَى النَّاسَ فِي كُلِّ مَا يَسْأَلُونَهُ فَهُوَ مَجْنُونٌ" (المدخل إلى السنن الكبرى للبیھقي / 653 // العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية لابن عابدین ج 7 / ص 349 )
یعنی: جو لوگوں کو ہراس( مسئلہ ) کا جواب دے جو اس سے پوچھا جائے تو وہ پاگل ہے ۔
3۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام ابن عابدین حنفی رحمہ اللہ نے کہا : " كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ رُبَّمَا لَا يُجِيبُ عَنْ مَسْأَلَةٍ سَنَةً وَقَالَ: " لَأَنْ يُخْطِئَ الرَّجُلُ عَنْ فَهْمٍ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُصِيبَ بِغَيْرِ فَهْمٍ ." (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية لابن عابدین ج 7 / ص 349)
یعنی : ( امام ) ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کبھی ایک سال تک کسی مسئلہ کے بارے میں جواب نہیں دیتے تھے ، اوراس نے ( یعنی امام ابو حنیفہ ) نے کہا :آدمی سمجھ کر ( یا سمجھنے میں ) غلطی کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ بغیر سمجھ کے درست کرے ۔
4۔ امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں آیا ہے : " وَقد سُئِلَ مَالك عَن أَرْبَعِينَ مَسْأَلَة فَقَالَ فِي سِتّ وثلاثین مِنْهَا لَا أَدْرِي " (تحفة الطالب بمعرفة أحاديث مختصر ابن الحاجب لابن کثیر / ص 456 // الإحكام في أصول الأحكام للآمدي / ج 4 / ص 171 // البحر المحيط في أصول الفقه للزَّرْكَشِيّ الشَّافِعِيّ / ج 4 / ص 495)
یعنی : یقینا ( امام ) مالک ( رحمہ اللہ ) کو چالیس مسئلوں کے بارے میں پوچھا گیا ، تو اس نے ان میں سے چھتیس کے بارے میں کہا : مجھے معلوم نہیں ہے ۔
امام مالک رحمہ اللہ ہی کے بارے میں آیا ہے : ایک آدمی نے ( امام ) مالک ( رحمہ اللہ ) سے ایک مسئلہ پوچھا تو اس نے کہا : " لا أحسنها فقال الرجل إني ضربت إليك من كذا وكذا لأسألك عنها فقال له مالك فإذا رجعت إلى مكانك وموضعك فأخبرهم أني قد قلت لك إني لا أحسنها" (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء للاصفہاني / ج 6 / ص 323)
یعنی: مجھے اچھی طرح معلوم نہیں ہے ، تو وہ آدمی بولا : میں اتنی اتنی مسافت سے آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے پوچھوں ، تو ( امام ) مالک (رحمہ اللہ )نے کہا :جب تو اپنی جگہ لوٹ جائے گا تو انہیں بتادینا ، کہ میں نے (یعنی مالک نے)تجھ سے کہا : مجھے وہ اچھی طرح معلوم نہیں ہے ۔
5۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں امام زرکشی نے کہا ہے : " وَكَثِيرًا ما يقول الشَّافِعِيُّ لَا أَدْرِي " (البحر المحيط في أصول الفقه للزَّرْكَشِيّ الشَّافِعِيّ / ج 4 / ص 495)
یعنی : بہت سے مسائل میں ( امام ) شافعی ( رحمہ اللہ ) کہتا تھا : مجھے معلوم نہیں ہے ۔
6 ۔ امام ابن عابدین حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں : " لَا يَجِبُ عَلَى الْفَقِيهِ الْإِجَابَةُ عَنْ كُلِّ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ إلَّا إذَا عَلِمَ أَنَّهُ لَا يُجِيبُهُ غَيْرُهُ فَيَلْزَمُهُ جَوَابُهُ لِأَنَّ الْفَتْوَى وَالتَّعْلِيمَ فَرْضُ كِفَايَةٍ ۔۔۔ " (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية لابن عابدین ج 7 / ص 349)
یعنی : فقیہ پر واجب نہیں ہے کہ وہ ہر اس مسئلہ کا جواب دے جو اس سے پوچھا جائے ، البتہ اگر اس کو معلوم ہوجائے کہ اس کے سوا اس کا جواب کوئی نہیں دیتا ہے تو اسے جواب دینا لازم ہوجائے گا کیوں کہ فتوی اور تعلیم فرض کفایہ ہے ۔۔۔۔
7۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے بارے میں امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا : " قال: مَا أُبَالِى سُئِلْت عَمَّا أَعْلَمُ أَوْ مَا لاَ أَعْلَمُ ، لأَنِّى إِذَا سُئِلْتُ عَمَّا أَعْلَمُ قُلْتُ مَا أَعْلَمُ ، وَإِذَا سُئِلْتُ عَمَّا لاَ أَعْلَمُ قُلْتُ لاَ أَعْلَمُ " (سنن الدارمي / 183)
یعنی : مجھے یہ پروا نہیں ہوتی ہے کہ مجھے اس کے بارے میں پوچھا جائے جو میں جانتا ہوں یا نہ جانتا ہوں، کیوں کہ جب مجھے اس کے بارے میں پوچھا جائے جو میں جانتا ہوں تو میں وہی کہتا ہوں جو جانتا ہوں ، اور اگر اس کے بارے میں پوچھا جائے جو میں نہیں جانتا ہوں تو میں کہتا ہوں : مجھے معلوم نہیں ہے ۔
8۔ امام الشَّعْبِى رحمہ اللہ نے خود کہا : " لاَ أَدْرِى نِصْفُ الْعِلْمِ " (سنن الدارمي / 180)
یعنی : " مجھے معلوم نہیں ہے ( کہنا ) نصف علم ہے ۔
یہ بہت سارے علماء کی بہت سی صراحتوں میں سے چند ہیں جن سے معلوم ہوا کہ اتنے بڑے بڑے علماء بھی علم دین کا احاطہ نہ کرسکے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اس کو پاگل کہیں جو ہر سوال کا جواب دینے بیٹھے ، امام ابو حنیفہ ایک سال تک جواب سے توقف کرے ، امام مالک اور امام شافعی بہت سے مسائل میں لا أدري ( مجھے نہیں معلوم ) کہہ دیں تو اس سے ان کی شان میں ایک ذرہ بھی کم نہیں ہوتا ، اور کوئی بھی مسلمان ان کی شان گھٹانہيں سکتا ہے ۔
لہذا یہاں سے ہمیں یہ درس حاصل کرنا چاہیے کہ آج بھی کوئی شخص پورے علم دین کا احاطہ نہیں کرسکتا ہے ، تو پھر یہ قابل اعتراض کیوں ہوسکتا ہے کہ جب کوئی کسی سوال کا جواب نہ دے سکے ۔ اور یہی مسئلہ مناظرہ بازی سے متعلق بھی ہے کہ جب کوئی کسی سوال کا جواب نہ دے تو اس سے کیا یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا مسلک ہی غلط ہے ؟! کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر ایک شخص جواب نہ دے سکے تو دوسرا اس کا جواب دے گا ؟
صحیح اور غلط کا دار و مدار دلائل کے صحیح اور غلط ہونے پر ہوتا ہے ، جن سے یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کس مسلک کی کونسی بات صحیح ہے اور کونسی بات صحیح نہیں ہے ، اس کے لیے پر امن علمی راہیں موجود ہيں ، ہزاروں لاکھوں تعداد کی علمی کتابیں موجود ہیں جنہیں پڑھ کر انسان صحیح اور غلط کی تمییز کرسکتا ہے ، اس کے لیے درس و تدریس کا کام سب سے پر امن طریقہ ہے ۔ یہاں پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مناظرہ بازي کو بڑھاوا دینے والے بعض لوگ درس و تدریس کا کام بھی کرتے ہيں تو جب کوئی سامع یا طالب علم کوئی سوال کرتا ہے یا تحقیق کرنا چاہتا ہے تو اسے یا تو یہ کہہ کر ٹالا جاتا ہے کہ یہ آپ نہیں سمجھ سکتے ہیں یا پھر اس انداز سے ڈانٹا جاتا ہے کہ نہ وہی دوبارہ سوال پوچھنے کی ہمت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی اور ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب یہ سامع یا طالب علم اس عالم کا جواب سمجھ نہیں سکتا ہے تو پھر مناظرہ بازی کو عام انسان کس طرح سمجھ کر صحیح اور غلط کی تمییز کرسکتا ہے ؟ !
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مناظرہ بازی کے بجائے درس و تدریس کا کام کیا جائے سامعین اور طلبہ کو بنیادی اصولوں کی جانکاری دی جائے ، مسئلہ کے دلائل پیش کیے جائیں ، دوسری رائے رکھنے والے کے دلائل ادب و احترام سے پیش کیے جائیں، پھرصحیح یا راجح قول بتایا جائے تو ضرور لوگوں میں یہ شعور آہستہ آہستہ پیدا ہوجائے گا کہ وہ یہ تمییز کرسکیں کہ کس کی بات درست معلوم ہوتی ہے اور کس کی درست معلوم نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن یہ کام دنوں کا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے تعلیم و دعوت کے مختلف وسائل بروکار لانے کی ضرورت ہوگی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر دکھائیں گے اور لوگ صحیح اور غلط کی تمییز کرسکیں گے ۔ آج کل اس عمومی تعلیمی شعور کی بیداری کو یہ کہہ کر ٹالا جاتا ہے کہ عوام سے اس طرح کی امید نہیں کی جاسکتی ہے ۔ حالاں کہ یہی عوام ایک زمانے میں جدید علوم خصوصا سائنس کچھ بھی نہیں جانتی تھی اور آج کل اسی عوام میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سائنس داں موجود ہيں تو ایسے ذہین لوگ کیوں علم دین کو نہیں سمجھ سکتے ؟ ہاں یہ دنوں کی بات نہيں ہے اس پر کافی محنت کی ضرورت ہے ، اور ایک وقت ضرور آئے گا جب اسی عوام میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ علم دین میں صحیح اور غلط کی تمییز کرسکیں گے ۔
کیا عدالتی مقدمہ کی سماعت میں قاضی کی طرح فقہی مناظرہ میں ایک قاضی کا تعین ممکن ہے ؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ دو مناظرہ کرنے والوں میں سے تیسرے شخص کو بطور قاضی متعین کیا جائے جو آخر میں فیصلہ کرے گا ، معلوم ہونا چاہیے کہ :
1 ۔ عدالتی مقدمہ کی سماعت کے طریقہ پر اسے قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ دونوں وکیل اور قاضی سب کے سب ایک ہی قانون کے تحت ان اصولوں کے تابع ہوتے ہیں جن پر وہ سب متفق ہوتے ہیں جب کہ مسلکی مناظرہ میں دونوں جانبین کےفقہی اصول ہی ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں، لہذا متفق ہونا کیسے ممکن ہے ، جیسے :
ا۔ بعض کے نزدیک : قطعي الثبوت(قرآن ، متواتر یعنی کثرت اسانید والی حدیث) کی تخصیص یا تقیید کے لیے قطعي الثبوت ہونا لازمی ہے ۔
ب ۔ بعض کے نزدیک : قطعی الثبوت کی تخصیص یا تقیید یا اس پر اضافہ صحیح خبر واحد(یعنی جس کی اسانید متواتر کے درجہ تک نہ پہنچتی ہوں ) سے جائز ہے ۔
2 ۔ اور اس لیے بھی عدالتی مقدمہ کی سماعت کے طریقے پر قیاس کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے کیوں کہ جب دونوں وکیل اور قاضی سب کے سب ان کے نزدیک متفق علیہ اصولوں کے تحت بات کرنے کے پابند ہوتے ہیں تو پھر قاضی جب فیصلہ سنائے گا اس پر اعتراض ممکن نہیں ہے اگر کوئی اعتراض کر بھی لے تو پھر وہ ایک ایسے کسی اورقاضی کے پاس جائيں گے جو انہیں اصولوں کے تحت نئے سرے سےمقدمہ کی سماعت کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔ غرض یہ کہ سب قاضیوں کے پاس ایک ہی قانون ہوتا ہے جوان سب کے نزدیک متفق علیہ ہے ۔
جب کہ فقہی مسلکی مناظرہ میں دونوں جانبین کے نزدیک فقہی اصول مختلف فیہ ہوتے ہیں تو فیصلہ کرنے والا قاضی یا تو دونوں میں ایک کے مسلک کا پابند ہوتا ہے یا تیسرے مسلک سے منسلک ہوگا تو ایسے شخص سے کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ صحیح فیصلہ سنائے؟ !
بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں مناظرہ کرنے والے پہلے ہی اصولوں پر اتفاق کرلیں گے ۔ جب اس پر غور کیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ بہت سارے فقہی اصولوں میں یہ ناممکن ہے، جیسے:
ا ۔ ایک مثال قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت سے تخصیص ، تقیید یا اضافہ کے جائز اور ناجائز ہونے کی اوپر گزر چکی ہے ۔
ب ۔ بعض کے نزدیک ضعیف حدیث پر اگر عمل رہا ہو تو اس پر اب بھی عمل درست ہے ۔ جب کہ بعض کے نزدیک ضعیف حديث پر اگرچہ عمل بھی رہا ہو تو وہ پھر بھی ضعیف ہی ہے اس پر عمل درست نہیں ہے ۔
ت ۔ بعض کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں قابل قبول ہیں ، جب کہ بعض کے نزدیک وہ ان میں بھی ناقابل قبول ہیں ۔
اسی طرح اور بھی بہت سارے اہم فقہی اصول ہیں جن پر علماء کا اختلاف رہا ہے ، اب اگر ایک جانب سے اپنے اصول پیش کیے جائیں گے تو دوسری جانب سے وہ یکسر مسترد ہوں گے ۔ اب مناظرہ سے قبل کیسے فقہی اصولوں پر اتفاق کیا جاسکتا؟! کیوں کہ فقہی فروعات کے اختلافات کے اہم اسباب میں فقہی اصولوں کا مختلف ہونا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلک کا مناظر اپنے وہ اصول پیش کرے جن سے دوسرا مناظر اختلاف رکھتا ہو، اور وہ انہیں قبول بھی کرلے!!!
بعض لوگوں کی حجت یہ بھی ہوتی ہے کہ مناظرہ کرنے والے ایک دوسرے سے مناظرہ کرکے حق کو پہچان سکتے ہیں ۔ اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ :
ا۔ کیا حق پہچاننے کے دیگر پر امن طریقے سب کے سب ختم ہوگئے ؟
ب ۔ کیا ایک دوسرے کی علمی کتابیں پڑھ کر حق کو نہیں پہچانا جاسکتا ہے ؟ جب کہ آج کل کے زمانے میں وسائل کی فراوانی سے ہزاروں لاکھوں کتابوں تک رسائی ممکن ہوچکی ہے ۔ جن میں سب مسالک کی دلائل موجود ہوتی ہیں اور ان پر دوسرے کے جوابات بھی موجود ہوتے ہیں، اور محقق ان پر نظر کرکے صحیح اختیار کرسکتا ہے ۔
کیا دوسرا فقہی مسلک گمراہ ہوتا ہے؟
بعض لوگ جب کسی فقہی مسئلہ میں کسی کے جواب سے راضی نہیں ہوتے ہيں تو فورا کہتا ہے کہ تم لوگوں کو گمراہ کرتے ہو ! یا بعض لوگوں کو تقریر یا تحریر میں فورا دوسری رائے رکھنے والے پر یہی لیبل چسپاں کرنے کا چسکا ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوئی جھوٹ ، دھوکہ دہی ، فریب کاری ، بہتان تراشی جیسے ہتھیار استعمال کرتا ہے، جیسے کہ کسی مسلک سے منسلک بعض متعصبین یا کسی جماعت کے بعض تنظیم پرست حزبی لوگ کرتے ہیں، تو ان امور سے ناراض ہوکر اگر کوئی اسے گمراہ کہتا ہے تو غلط نہ ہوگا ، ورنہ اگر یہ اختلاف علمی اختلا فات کی بنیاد پر ہے تو یہ ہرگز مذموم نہيں ہے، کیوں کہ یہ علمی اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، اور دیگر فقہاء کرام کے درمیا ن رہا ہے، میری معلومات کے مطابق ان میں سے کسی نے بھی دوسری رائے رکھنے والے کو گمراہ ، کفار وغیرہ کا ایجنٹ ، یا فلاں کافر کی نسل جیسے جاہلانہ الفاظ سے نہیں پکارا، بلکہ ہر ایک اپنا موقف پیش کرتا تھااور اس پر عمل پیرا رہتا تھا ، کبھی کوئی اپنے موقف سے رجوع بھی کرتا تھا۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے سنا:
" إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ" (بخاری / 7352)
یعنی : جب حاکم فیصلہ کرے تو اس میں اجتہاد کرے پھر وہ اسے درست ہوجائے تو اس کے لیے دو اجر ہیں ، اور جب وہ فیصلہ کرے تو اس میں اجتہاد کرے پس وہ اس سے غلط ہوجائے تو اس کے لیے ( پھر بھی ) ایک اجر ہے ۔
اسی حدیث کا معنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اس فرمان سے بھی اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے ، انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دو اقوال کے بارے میں کہا ہے:
" أحد القولين خطأ والمأثم فيه موضوع." (جامع بیان العلم لابن عبد البر ج 2 / ص 166 // وحدت امت ، اختلافات امت اور ان کا حل از مولانا مفتی محمد شفیع/ ص 16)
یعنی: دو اقوال میں سے ایک غلط ہے اور اس( غلط ) کا گناہ معاف کیا گيا ہے ۔
امام مالک کے کلام سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے ان سے صحابہ رضی اللہ عنہ کے فقہی اختلافات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : "خطأ وصواب، فانظر في ذلك" (جامع بیان العلم لابن عبد البر ج 2 / ص 163 // وحدت امت ،اختلافات امت اور ان کا حل از مولانا مفتی محمد شفیع/ ص 16) یعنی : ان میں صحیح بھی ہے اور غلط بھی ہے ، لہذا اس میں ( غور اور تحقیق کرکے ) دیکھو۔
معلوم ہوا کہ فقہی اختلاف کا ہونا ممکن ہے ، اور یہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک تمام فقہاء کے درمیان ہوتا رہا ہے ، ذیل میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوگا کہ علماء کے درمیان علمی اختلافات پائے جاتے تھے ، اور ان میں سے کسی کو بھی گمراہ نہیں کہا جاسکتا ہے ، بلکہ علماء ربانیین کو گمراہ کہنا خودکی گمراہی ہے، جیسے :
1 ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو صرف ایک شمار کیا جاتا تھا ، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں دو سال کے بعد ان تینوں کو تین شمار کرلیا ( زاد المعاد / ج 5 ) ۔ اب(نعوذ باللہ ) ان جلیل القدر صحابہ میں سے کس کو گمراہ کہا جائے ۔ ایسا کرنے والا فاسق اور فاجر ہی ہوسکتا ہے ۔
2۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، فقیہ العصر ابن عثیمین رحمہم اللہ حالت حیض میں دی ہوئی طلاق کو شمار نہیں کرتے ہیں ، جب کہ امت کے بہت سارے علماء ( جن میں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی، امام البانی رحمہم اللہ سب شامل ہیں ) اسے شمار کرتے ہیں (فتاوی ابن تیمیۃ /ج 33 /ص 18 سے 43تک // زاد المعاد/ ج 5 / ص218 سے 240 تک // الشرح الممتع / ج 13 / ص 142 // إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل / ج 7 / ص 133) ۔
3 ۔ اگر کوئی وضو کے بعد بال کاٹے توعام فقہاء رحمہم اللہ کے نزدیک اس جگہ پر دوبارہ پانی پہنچانا واجب نہیں ہے جب کہ امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کے نزدیک واجب ہے ۔ ( بدائع الصنائع /ج 1 / ص 139 )
4۔ امام کاسانی ( حنفی ) رحمہ اللہ نے مغرب کے آخری وقت کے بارے میں کہا :
ا ۔ ہمارے اصحاب ( یعنی حنفیہ ) نے کہا : جب شفق غائب ہوجائے ۔
ب ۔ امام شافعی ( رحمہ اللہ ) نے کہا : اس کا وقت ( صرف اتنا ) ہے کہ جس میں انسان پاکی ( یعنی وضو ) کرلے ، اذان دے ، اور تین رکعت ادا کرسکے ، اگر اس ( مدت ) کے بعد نماز پڑھے تو وہ قضاء ہوگی ، ادا ( یعنی اپنے وقت پر) نہ ہوگی ۔ ( بدائع الصنائع / ج 1 / ص 320 )
5 ۔ امام کاسانی رحمہ اللہ ہی نے کہا : عشاء کا اول وقت شفق غائب ہونے سے ( شروع ہوتا) ہے ، شفق کی تفسیر میں ( علماء نے ) اختلاف کیا ہے :
ا ۔ ( امام ) ابو حنیفہ ( رحمہ اللہ ) کے نزدیک : یہ سفیدی ( مراد ) ہے ۔ یہی مذہب(حضرت) ابو بکر ، (حضرت)عمر ، (حضرت) معاذ، (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہم کا ہے ۔
ب ۔ (امام )ابو یوسف ( حنفی )، ( امام ) محمد ( حنفی ) ، ( امام ) شافعی (رحمہم اللہ) (حضرت) عبد اللہ بن عباس ، (حضرت)عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا قول یہ ہے کہ : ( اس شفق سے مراد )سرخی ہے ۔ اور بروایت اسد بن عمرو یہ ( امام ) ابو حنیفہ ( رحمہ اللہ ) کی ( بھی ) ایک روایت ہے ۔
( بدائع الصنائع / ج 1 / ص 320 )
6 ۔ کشمیر کے سرد موسم میں گرم موضوع رہنےوالے مسئلہ کی مثال پیش ہے :
ا ۔ امام کاسانی حنفی رحمہ اللہ نے کہا : رہی بات جوربین ( یعنی عام موزوں کی جو چمڑے کے نہ ہوں)پر مسح کی ، تو اگر وہ مجلدین ہوں(یعنی جن کے اوپر نیچے چمڑا ہو ) یا منعلین ہوں (یعنی جن کے نیچے سے چمڑا ہو )تو ہمارے اصحاب ( یعنی علماء احناف کے ) نزدیک بلاخلاف ( مسح ) کفایت کرجائے گا ۔
ب ۔ پس اگر وہ باریک ہوں کہ پانی سرایت کرجائے ( یا جن کے نیچے سے پیر کی چمڑی نظر آتی ہو )تو بالاجماع جائز نہیں ہے ۔
ت ۔ اور اگر (مجلدین یا منعلین نہ ہوں بلکہ صرف)وہ موٹے ہوں:
تو ( امام ) ابو حنیفہ ( رحمہ اللہ ) کے نزدیک ( پھر بھی ) جائز نہيں ہے ۔
اور ( امام ) ابو یوسف ( حنفی رحمہ اللہ ) اور ( امام ) محمد ( حنفی رحمہ اللہ ) کے نزدیک جائز ہے ۔
ث ۔ یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ ( امام ) ابو حنیفہ ( رحمہ اللہ ) نے ان دونوں ( یعنی اپنے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ ) کے قول کی طرف اپنی آخری عمر میں رجوع کرلیا ہے ۔ وہ اس طرح کہ اس نے اپنی بیماری میں جوربین پر مسح کیا اور عیادت کرنے والوں سے کہا : میں نے وہ کیا ہے جس سے میں لوگوں کو منع کرتا تھا ۔ تو انہوں نے اس سے ان کے رجوع پر استدلال کیا ہے ۔
ج ۔ امام شافعی کے نزدیک : جوارب ( عام موزوں ) پر مسح جائز نہیں ہے اگرچہ وہ منعل بھی ہوں(یعنی نیچے سے چمڑا لگا ہو)، البتہ اگر وہ ٹخنوں تک مجلد ہوں ( یعنی اوپر نیچے چمڑا لگا ہو ا ) تو جائز ہے ۔
( بدائع الصنائع / ج 1 / ص 83 // الجوھرۃ النیرۃ لابی بکر الزَّبِيدِيّ / ج 1 / ص 107 )
7 ۔ جانوروں کے جوٹھے کی مثال : امام کاسانی حنفی رحمہ اللہ نے کہا :
ا ۔ عام ( یعنی اکثر ) علماء کے نزدیک : خنزیر ، کتے ، اور تمام وحشی درندوں کا جوٹھا نجس ہے ۔
ب ۔ (امام )مالک (رحمہ اللہ )کے نزدیک:( خنزیر ، کتے ، اور وحشی درندوں کا جوٹھا ) پاک ہے ۔
ت ۔ (امام )شافعی (رحمہ اللہ )کے نزدیک : خنزیر اور کتے کے سوا سب وحشی درندوں کا جوٹھا پاک ہے ۔
( بدائع الصنائع / ج 1 / ص 202 / السؤر المختلف فی طھارتہ و نجاستہ)
8 ۔ گھوڑے کے گوشت کی مثال :
ا ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک : مکروہ ہے ۔
ب ۔ امام ابو یوسف حنفی رحمہ اللہ اور امام محمد حنفی رحمہ اللہ ، اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک : حلال ہے ۔
( المبسوط للسَّرَخْسِي / ج 14 / ص 77 // الاختیار لتعلیل المختار لعبد الله بن محمود بن مودود الموصلي الحنفي / ج 5 / ص 16 )
9 ۔ جہری نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم یا سرا (یعنی پست آواز سے)پڑھنا :
ا ۔ حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابن الزبیر ، حضرت عمار رضی اللہ عنہم اجمعین اور امام حکم ، امام حماد ، امام اوزاعی ، امام ثوری ، امام ابن المبارک اور حنفی علماء(اصل کتاب میں یہاں پر اصحاب الرائے لکھا ہے ) ، امام احمد رحمہم اللہ اجمعین کے نزدیک : جہرا پڑھنا مسنون نہيں ہے ۔
ب ۔ امام عطاء ، امام طاوس ، امام مجاہد ، امام سعید بن جبیر رحمہم اللہ عنہم اجمعین سےجہرا پڑھنے کی روایت کی جاتی ہے ۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔
( المغني / ج 2 / ص 149 )
10 ۔ مرد کی ناف اور گھٹنوں کا ستر میں شامل ہونے کا مسئلہ :
ا ۔ امام احمد ، امام شافعی ، امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک : ناف اور گھٹنے ستر میں شامل نہیں ہیں ۔
ب ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک :گھٹنےستر میں شامل ہیں ۔
( المغني / ج 2 / ص 286 )
11 ۔ ماء مستعمل جو رفع حدث( یعنی پاکی حاصل کرنے )کے لیے استعمال کیا جاچکا ہو ۔ تو کیا اسےنجاست دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ شافعیہ کے نزدیک اس میں اختلاف ہے ، امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے کہا:
ا ۔ (امام) ابو القاسم الانماطي( شافعی ) اور( امام) ابو علی خیران( شافعی ) رحمۃ اللہ علیہما کے نزدیک : جائز ہے
ب ۔ جب کہ شافعیہ کے ( مختار ) مذہب(یعنی جس پر ان کا عمل ہے ) میں جائز نہيں ہے ۔
(المجموع شرح المھذب للشیرازی / ج 1 / ص 68)
12 ۔ نماز میں عام قنوت کا مسئلہ ( یعنی جو قنوت نازلہ کے علاوہ ہے ):
ا ۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک : صبح کی نماز میں قنوت مستحب ہے ۔
ب ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک : صبح کی نماز میں قنوت سنت ہے ۔
ت ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک : صبح کی نماز میں قنوت جائز نہیں ہے ، اس کا مقام وتر میں ہے ۔
ث ۔ بعض نے کہا : ہر نماز میں قنوت کیا جائے ۔
ج ۔ بعض نے کہا : رمضان کے سوا قنوت ہی نہیں ہے ۔
ح ۔ بعض نے کہا : صرف رمضان کے آخری نصف میں قنوت کیا جائے ۔
خ ۔ بعض نے کہا : صرف رمضان کے پہلے نصف میں قنوت کیا جائے ۔
(بدایۃ المجتھد / ص 109 )
یہ تھیں ان سینکڑوں ہزاروں فقہی مسائل میں سے چند مثالیں جن میں علماء کرام رحمہم اللہ نے اختلاف کیا ہے ۔ ہر مسلک کی کتابوں میں اختلافات کی اتنی کثرت ہے کہ کسی مخصوص مسئلہ کے ڈھونڈنے کے قصد کے بغیر ہی آدمی کتاب کہیں سے بھی کھولے تو کوئی نہ کوئی اختلاف ضرور نظر آجاتا ہے ۔ جب میں اس مقالہ میں گزشتہ کچھ مثالیں لکھ رہاتھا تو سوائے دو تین مسئلوں کے سب کی سب مثالیں بغیر ارادہ نکل آئیں ، کتاب ہاتھ میں لی ، اوراق کا ایک گچھا ایک طرف اور ایک گچھا دوسری طرف کیا تو سامنے ان مسائل پر نظر پڑتی تھی اور انہیں کو درج کرتا گیا۔ ایسا ہونا اہل علم کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ مثالیں تو تلاش کیے بغیر بھی مل گئيں لیکن ایک بات تلاش کرنے کے باوجود بھی نہیں ملتی ہے جو کہ یہاں کشمیر میں اکثر سننے کو ملتی ہے جس کی طرف میں نے اوپر بھی اشارہ کیا ، کہ جب کوئی کسی کے جواب سے راضی نہیں ہوتا ہے تو فورا وہ کہتا ہے کہ تم امت کو گمراہ کرتے ہو ۔ اس طرح کے الفاظ سابق علماء ایک دوسرے سے کیوں نہیں کہتے تھے ؟ ! کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان فقہی اختلافات کے پیچھے علمی اسباب ہیں جن کی بنا پر اس طرح اختلافات ہوتے ہیں ، لہذا انہیں برداشت کرنا ہوگا ۔
یہاں پر میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ( معارف القرآن کے مؤلف ) کا ایک اقتباس پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں، انہوں نے لکھا ہے :
"استاذ الاساتذہ سیدی حضرت سید محمد انور کشمیری رح ( رحمہ اللہ ) سابق صدر مدرس دار العلوم دیوبند نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم اور عام اہل علم الجھتے رہتے ہیں اور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں ، ان میں صحیح و غلط کا فیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا میرا گمان تو یہ ہے کہ محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا ۔ کیونکہ رب کریم نے جب دنیا میں کسی امام مجتہد کو باوجود خطا ہونے کے ایک اجر و ثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطا پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرماء کی رحمت سے بہت بعید ہے کہ وہ محشر میں اپنے ان مقبولان بارگاہ میں سے کسی کی خطاء کا اعلان کرکے اس کو رسوا کریں " (وحدت امت ،اختلافات امت اور ان کا حل / ص 20)
کشمیر میں فقہی مسائل کی مناظرہ بازی کا چیلنج دینے والے حضرات کو اس عظیم کشمیری عالم دین کے اس ناصحانہ کلام کی قدر کرتے ہوئے اپنے ذہن پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔
اسی طرح مولانا محمد شفیع صاحب کااپنا ارشاد بھی ملاحظ ہو ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عبادات میں فقہی اختلافات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں :
" ۔۔۔ ایسے ہی غیر منصوص یا مبہم معاملات حلال و حرام ، جائز و ناجائز میں بھی صحابہ کرام رض ( رضی اللہ عنہم ) کی آراء کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی نہیں ، پھر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کے شاگرد حضرات و تابعین کا یہ عمل بھی ہر اہل علم کو معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت کسی صحابی کی رائے کو اختیار کرلیتی تھی اور کوئی ان کے مقابل دوسری جماعت دوسرے صحابی کی رائے پر عمل کرتی تھی لیکن صحابہ و تابعین کے اس پورے خیر القرون میں اس کے بعد ائمہ مجتہدین اور ان کے پیروؤں میں کہیں ایک واقعہ بھی اس کا سننے میں نہیں آیا کہ ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق کہتے ہوں یا کوئی مخالف فرقہ اور گروہ سمجھ کر ایک دوسرے کے پیچھے اقتداء کرنے سے روکتے ہوں یا کوئی مسجد میں آنے والا لوگوں سے یہ پوچھ رہا ہو کہ یہاں کے امام اور مقتدیوں کا اذان و اقامت کے صیغوں میں قراءت فاتحہ ، رفع یدین وغیرہ میں کیا مسلک ہے ۔ ان اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل یا سب و شتم توہین ، استہزاء اور فقرہ بازی کا تو ان مقدس زبانوں (اصل کتاب میں اسی طرح ہے ، لیکن شاید یہاں پر " زمانوں " ہوگا ، جیسا کہ سیاق و سباق سے اندازہ ہوتا ہے)میں کوئی تصور ہی نہ تھا " (وحدت امت ،اختلافات امت اور ان کا حل / ص 20)
فقہی اختلافات کو براداشت کرنے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے اور اس کا جواب ادب سے دینے کے بارے میں بہت سارے علماء کے فرمودات موجود ہیں ، جو اہل علم پر مخفی نہیں ہیں ، لیکن یہاں کشمیر میں کچھ مخصوص ذہن و اہداف رکھنےوالے لوگ لڑائی اور جھگڑے کے ماحول کو پروان چڑھانے میں ہی خوش نظر آرہے ہیں ، مخالف فقہی رائے رکھنے والے کو برے القاب سے استقبال کیا جاتا ہے ، ایسا کرنا شرعی مقاصد کی عین مخالفت ہے ، اور وحدت امت کے بالکل مخالف ہے ۔ فقہی اختلافات نہ کبھی ختم ہوئے اور نہ ہی ختم ہوسکتے ہیں ، البتہ انہیں ہمیشہ برداشت کیا جاسکتا ہے ، جس سے آپسی افتراق سے بچنا ممکن ہوجائے گا ۔
یہاں پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بارہویں فقہی سمینار منعقدہ 11 تا 14 فروری 2000 ء بمقام دار العلوم اسلامیہ بستی میں باتفاق علماء جو فیصلے لیے گیے ان میں چند یوں تھے :
4 ۔ ائمہ مجتہدین کی آراء پر عمل کرنے والی مختلف جماعتوں یا افراد کا ایک دوسرے کے برا بھلا کہنا ، یا ان اکابر سلف کی مذمت کرنا ، یا ان کے فقہی استنباطات کو تمسخر کا نشانہ بنانا قطعا حرام ہے ، اور یہ کسی مسلمان کے لیے دنیا و آخرت میں سخت بد نصیبی اور خسارہ کا سبب ہے ۔
5 ۔ اختلافی مسائل میں سلف صالحین کی روش رواداری ، ادب و احترام ،ایک دوسرے کے مقام و منصب کو ملحوظ رکھنے اور ان کے علوم و معارف کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنے کی رہی ہے ، ان حضرات نے علمی مباحثات میں ان آداب کو پوری رعایت کی ہے ، بلاشبہ سلف صالحین کی روش ہمارے لئے مشعل راہ ہے ، افراد امت کی ذمہ داری ہے کہ اسی روش کو اختیار کریں اور اختلافی مسائل میں راہ اعتدال پر چلیں ۔
6 ۔ اگر وقت اور حالات کی تبدیلی سے معاشرہ کسی مشکل صورت حال کا شکار ہو اور ائمہ مجتہدین کی فقہی آراء میں سے ایک پر عمل حرج اور دشواری کا باعث ہو اور دوسری فقہی رائے پر عمل سے یہ حرج دور ہوجائے تو ایسی صورت میں علماء و فقہاء جو اصحاب ورع و تقوی اور ارباب علم و فہم ہوں ان کےلئے دوسری رائے پر فتوی دینا جائز ہے جو باعث دفع حرج ہو ، البتہ اس طرح کے مسائل میں انفرادی طور فتوی دینے کے بجائے اجتماعی طریقہ اختیار کیا جائے۔ (اختلافات ائمہ کی شرعی حیثیت ، ناشر : ایفاپبلیکیشنز ، نئی دہلی / ص 18، 19)
اسی اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے پیش لفظ میں کہا ہے :
"افسوس کہ ادھر کچھ عرصے سے فقہی اختلاف رائے جو عہد صحابہ سے ہے اور جس کو سلف صالحین نے کبھی بھی اس نظر سے نہيں دیکھا کہ یہ حق و باطل کا اختلاف ہے ، اس کی وجہ سے دل تقسیم نہیں ہوئے ، اب ان کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ، مخالف نقطہء نظر کے لوگوں کو گمراہ ثابت کرنے اور ان کو باطل ٹھہرانے کے استدلال کیا جارہا ہے ۔۔۔" (اختلافات ائمہ کی شرعی حیثیت ، ناشر : ایفاپبلیکیشنز ، نئی دہلی / ص 13)
یہاں پریہ مذکورہ بالا چند حوالہ جات اس غرض سے درج کیے گئے تاکہ وہ لوگ اپنی ذہینت کی اصلاح کرلیں جو یہاں کشمیر میں مخصوص ذہنیت کے حامل چند افراد ہيں وہ بات بات پر مناظرہ بازی کا چیلنج لے کر پھر رہے ہيں تاکہ کہيں سے مناظرہ بازی کی آگ لگا کر سب علماء اور داعیوں کو اسی میں جھونک دیا جائے ، اور کشمیری عوام اس آگ پر پانی کے بجائے تیل ڈالنے میں مشغول ہوجائے ۔ ان مخصوص ذہنیت کے لوگوں کے لیے مذکوہ بالا بیانات چشم کشا ہيں، انہيں چاہیے کہ اپنی ذہنیت پر نظر ثانی کریں ۔ اور عوام کو بھی چاہیے کہ اس پر غور کریں کہ موجودہ حالات میں چیلنج قبول کرنے اور نہ کرنے میں سے کس میں وقت کی رعایت ہے ؟ !
جب ایک مسلک کے اندرداخلی فقہی اختلاف برداشت ہے تو منجملہ دیگر مسلکوں کا اختلاف برداشت کیوں نہیں ہے ؟
معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مسلک کے اندر علماء کے فقہی اختلافات سینکڑوں میں موجود ہیں ، صاحب مذہب سے دیگر علماء اختلاف کرتے ہیں ، کبھی وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ صاحب مذہب ہوتا ہے ، کبھی صاحب مذہب کی بات کو ہی ترک کردیا جاتا ہے اور دیگر علماء کی بات قبول کی جاتی ہے ، اس سب کے لیے ترجیح کا عمل کیا جاتا ہے ۔ اور ایسا سب فقہی مسلکوں کے اندر پایا جاتا ہے، یہ بات اہل علم پر مخفی نہیں ہے ۔ چند مثالیں اوپر بھی درج کی گئی ہیں ۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ جب ایک مذہب کے داخلی فقہی اختلاف کے لیے ترجیح کا عمل کیا جاتا ہے اور اس عمل کو کوئی بھی مذموم نہیں سمجھتا ہے، کوئی کسی کو گمراہی اور ایجنٹ ہونے کا طعنہ نہیں دیتا ہے تو عصر حاضر میں جب دوسرے مسلک کے عالم کا فقہی اختلاف سامنے آجاتا ہے تو اسے طعنوں کی بارش سے کیوں استقبال کیا جاتا ہے ، اس وقت وہ سنجیدگی اور ادب و احترام کہاں جاتا ہے جو اپنے مسلک کے داخلی اختلاف میں ترجیحی عمل کرنے کے وقت کیا جاتا ہے، مخالف رائے رکھنے والے اپنے مسلک کے عالم کا نام ادب و احترام سے کیوں لیا جاتا ہے اور دوسرے مسلک کے عالم کی مخالف رائے رکھنے والے عالم کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی بلکہ بے شرمی اختیار کرنے سے شرم نہیں آتی ہے ۔
دراصل یہ برداشت اور عدم برداشت کی بات ہے ، لوگ اپنے مسلک کے اختلاف کو برداشت کرتے ہیں اور دوسرے مسلک کے اختلاف کو برداشت کرنا نہیں چاہتے ہیں ، ایسا کرنا سراسر ظلم اور زیادتی ہے اس طرح کی مثالیں سابق علماء ربانیین سے نہیں ملتی ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس ان سے ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے دوسرے مسلک کے اختلاف کو برداشت کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔ تاریخ میں بہت سی مثالیں ایسی ہیں کہ کسی ملک کا قاضی ایک مسلک کا ہوتا تھا وہ مسائل حل کرلیتا تھا ، جب کہ دوسرے علماء اسی ملک میں موجود ہوتے تھے اور وہ اپنے مسلک کی دعوت و تعلیم کا کام کرتے رہتے تھے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا یہ دعوی تو ہے کہ سب فقہی مسالک برحق ہیں، لیکن جب مخالف فقہی مسلک کے کسی مسئلہ پر کسی کو عمل کرتے دیکھتے ہیں تو فورا اسے گمراہ کہتے ہیں ۔ حالاں کہ یہ غور نہیں کرتے ہيں کہ جب سب برحق ہیں تو پھر ان پر عمل کیسے گمراہی ہوسکتی ہے؟ !
یہ بات بھی واضح رہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب فقہی اختلاف کی اتنی گنجائش موجود ہے تو پھر تحقیق کی کیا ضرورت ہے ؟ ! لہذا جو جیسے چاہے عمل کرلے ! ۔
اس کی وضاحت یوں ہے فقہی اختلاف کی گنجائش ضرور موجود ہے اور اسے برداشت بھی کیا جاسکتا ہے لیکن حسب استطاعت علم حاصل کرنا اور صحیح اور غلط کی تمییز کرنا ضروری ہے اسی لیے اجتہاد میں بھی دو پہلو بتائے گئے ہيں اگر درست ہوجائے تو دو ثواب اور اگر غلط ہوجائے تو پھر بھی ایک ثواب ملے گا ۔ گویا معلوم ہوا کہ عالم دین کو صحیح کی کوشش کرنا لازمی ہے ، اللہ کا ارشاد ہے :
"فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا" (64 / التغابن / 16)
یعنی: پس تم اللہ سے حسب استطاعت ڈرو ، اور سنو اور اطاعت کرو ۔
گویا کہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ ہر ایک اپنی وسعت کے مطابق تقوی حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ بعض لوگ معمولی جدوجہد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نےواجب ادا کرلیا ۔ ایسا درست نہیں ہے کیوں کہ ہر کام کے لیے کوشش کی مقدار مختلف ہے ، جیسے اگر پانچ گرام وزن اٹھانا ہے تو دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے بیٹھے بیٹھے ہی بآسانی اٹھایا جاسکتا ہے اور جب پچاس کلو وزن اٹھانا ہو تو دو انگلیوں سے اٹھانے کی کوشش کرکے جب وہ اٹھ نہ پائے تو یہ کہنا کہ میں نے کوشش کی ، بالکل غیر معقول اور غیر مقبول ہے ، کیوں کہ اسے اٹھانے کے لیے پہلے خود بھی کھڑا ہونا پڑے گا پھر دونوں بازوں میں جتنی قوت ہوگی وہ سب بروئےکار لانی ہوگی ، اس کے بعد جو اٹھا نہ سکے وہ بری الذمہ ہوگا ۔
چونکہ علم دین سیکھنا بھی حسب استطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ" (المعجم الکبیر للطبرانی /10286 // امام البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے / الجامع الصغیر / 7360 )
یعنی: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
لہذا آنکھیں بند کرکے صحیح اور غلط کی تمییز کی کوشش کیے بغیر عمل درست نہیں ہے ۔ اسی لیے علماء ربانیین نے عہد صحابہ سے آج تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ، البتہ اس میں اپنی بات مدلل اور مؤدب انداز میں پیش کی جائے اور دوسروں کی بات کا احترام کیا جائے ، اور اس پر بھی غور کیا جائے اور اگر وہی درست معلوم ہوجائے تو اسی پر تعصب ترک کرکے عمل کیا جائے ۔ اور اگر درست معلوم نہ ہو تو ادب و احترام کا دامن چھوٹ نہ جائے ، جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم اور امت اسلامیہ کے ہزاروں فقہاء کرام کا طریقہ رہا ہے ۔ جیسے کہ کبھی کبھی بڑے بڑے اماموں کے شاگرد ان سے کسی مسئلہ میں اختلاف کرتے تھے ، ہر ایک دوسرے کا احترام کرتا ، دوسرے کی رائے کو برداشت کرتا ، اس پر نظر کرتا اگردلائل کی رو سے درست معلوم ہوتی تو اسے اختیار کرتا ورنہ اسے چھوڑ دیتا تھا ۔
البتہ جو اختلاف فقہی مسائل میں نہيں ہے بلکہ اعتقادی مسائل ہے تو وہ بلاشبہ قابل مذمت ہے ہر ایک مسلمان کو قرآن ، حدیث ، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چل کر عقیدۃ اختیار کرنا چاہیے ، لہذا دین میں ہر نیا عمل ، یا ترمیم یا اضافہ گمراہی ہے کیوں کہ اسے بذات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی گمراہی کہا ہے ۔ جیسے احادیث کی کتابوں میں بہت سی صحیح احادیث میں موجود ہيں ۔
اسی طرح اگر کبھی کوئی شخص رذائل کا اختیار کرے جیسے جھوٹ ، فریب ، دھوکہ ، بہتان تراشی ، حق کو باطل اور باطل کو حق کی شکل دینے کی مذموم کوشش کرے جیسے کہ بعض مسالک کے بعض متعصبین اور بعض تنطیموں کے حزبی لوگ دوسروں کے خلاف ان رذائل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہيں تو ایسا کرنا بھی کھلی گمراہی ہے ، اور لوگوں کو ان چیزوں سے باخبر کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ سب امت اسلامیہ کی وحدت کے بالکل منافی ہے۔ اس سلسلے میں میں نے دو اہم مقالے تحریر کیے ہیں ایک " جماعت کا صحیح مفہوم " کے عنوان سے اور دوسرا " دعوت دین میں جھوٹ کی چھوٹ نہیں " کے عنوان سے ، خواہش مند حضرات انہیں ایم ایس بی کی ویب سائٹ www.jkmsb.edu.in پر پڑھ سکتے ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مناظرہ بازی میں مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ہمیں مدارس میں درس و تدریس کے دوران مسائل کے متعلق بحث وتمحیص کا دروازہ کھولنا چاہیے ، وہاں پر اگر بال کی کھال بھی اتاری جائے تو بیجا نہ ہوگا، طلبہ کو سوالات پوچھنے کی اجازت دی جائے اور انہیں مدلل اور اطمینان بخش جوابات دیے جائیں ۔ کتابوں میں اپنے موقف کا اظہار مدلل اور مؤدب انداز میں بیان کیا جائے ، دوسروں کی رائے کو برداشت کیا جائے اور اس پر ادب و احترام سے نظر کی جائے ، اگر دلائل کے زیادہ قریب ہوں تو قبول کیا جائے ورنہ رہنے دیا جائے ، لیکن اس کے قائل کی توہین کرکے اپنی عاقبت کو خراب نہ کیا جائے ۔ یہی عموما عالم اسلام کے موجودہ حالات اور خصوصا کشمیریوں کے لیے کشمیر کے حالات کا تقاضا ہے ۔ اور یہی ہمارے سابق علماء ربانیین کا طریقہ رہا ہے ، اور یہی اسلامی اخوت کا درس ہے ۔
مجھے امید ہے کہ عالم اسلام کے موجودہ حالات اور خاص کرکشمیر کے موجودہ حالات پر سنجیدگی سے نظر رکھنے والے اور غور کرنے والے مسلم دانشورمیرے اس مقالہ پر ضرور غور فرمائیں گے ۔ اور اگر اس مقالہ پر کوئی رائے دینی ہو تو مجھے اس ای میل پر مطلع فرمایں : khajaharoon@gmail.com
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ امت اسلامیہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ، اور تمام مسلمانوں کو اسلامی اخوت کی سمجھ عطا فرمائے ( آمین )
تحریر
ھارون رشید خواجہ
مدیر مسلم اسٹوڈنٹس بورڈجموں کشمیر (MSB)
بتاریخ : 2 مارچ 2016