فساد کے وقت مسلمان کے آداب

{

( ماخوذ از : موسوعة الآداب الإسلامیة، ج 2 ص 39 ، اعداد : فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن محمد المعتاز )

ترجمہ : امتیاز احمدڈار ، بٹہ مالو، طالب علم : ھیئۃ الطلاب المسلمین جموں و کشمیر MSB ، مراجعہ: ھارون رشید خواجہ ، بتاریخ :  26 مارچ  2016 

}

اللہ تعالی نے فرمایا: " وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ" ( الأعراف :142  )

یعنی :اصلاح کرتے رہنااور فساد کرنے والوں کی راہ  پر نہ چلنا۔

اور فرمایا : " وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ " ۔ (القصص:77)

 یعنی : اور زمین میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقینا اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا ہے (القصص:۷۷)

اور فرمایا : " وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ " (الأنفال :73)

یعنی: اور جنہوں نے کفر کیا وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں،اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ ہو گا اور بڑا فساد ہوگا ۔

عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : " إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا كَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ لاَ يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا" ۔(متفق علیہ،بخاری :1437 // مسلم :1024 ، یہ الفاظ اسی کتاب کے بروایت عائشۃ رضی اللہ عنہا ہیں)

یعنی : عائشۃ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، اس نے کہا : رسول اللہﷺ نے فرمایا:  جب عورت اپنے گھر کے کھانے میں سے فساد کے بغیر(یعنی معقول طریقے سے) خرچ کرے،تو اس کے لئے اس کو اجر ہوگا جو اس نے خرچ کیا ، اور اس کے شوہر کے لئے بھی اس کا اجر ہوگا جو اس نے کمایا ، اور خزانچی کے لئے بھی اسی جیسا اجر ہوگا۔ کسی ایک کا بھی اجر کم نہیں کیا جائے گا۔

اس کے آداب میں سے ہے کہ مسلمان ( تمام ) چیزوں کی حفاظت کرے اور جو اس کے لے دنیا و آخرت میں نفع بخش امور ہیں ان کو خراب نہ کرے۔ اور روئے زمین پر بے گناہ نفس کا قتل ، یا دہشت گردی ، یا رہزنی ، یا لوگوں کو ڈرانا یا ان کے اموال کو ہڑپنا یا بڑے گناہوں کا ارتکاب کر کے فساد بپا کرنے کی جدوجہد نہ کرتے رہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا :" قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ " (النمل:34)

یعنی :اس نے( یعنی ملکہ نے ) کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اسے اجاڈ دیتے ہیں، اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔  اور اسی طرح یہ بھی کریں گے ۔

اور فرمایا: " وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا" (الأعراف: 85 )

یعنی: اور زمین میں اس کی اصلاح ہوجانے کے بعد فساد مت پھیلاؤ ۔

اور مسلمان کے آداب میں سے نیکیوں کی تلقین کرنا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے :  

" فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ " (الھود: 116 )

یعنی : پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان سے نجات دی تھی ۔ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑگئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے۔  

مسلمان پر واجب ہے اصلاح کرنا،اخلاقی درستگی کرنا،استقامت کرنا ،فتن سے دوری کرنا،اللہ کی طرف دعوت دینا ، اللہ کی فرمانبرداری میں (مسلمان ) حکمران کی اطاعت کرنا ( یہ سب امور واجب ہیں )۔ یقینا اللہ نے انبیاء کرام کو بھیجا تا کہ وہ لوگوں کی اصلاح کریں، دنیا کی اصلاح کریں اور اللہ کی شریعت قائم کریں،اور شرک کا قلع قمہ کریں، جو کہ سب سے بڑا فساد ہے اور گناہوں کو ختم کردیں ،( شرعی )حدود قائم کریں جو کہ اصلاح،اخلاقی درستگی،اور خوشگوار زندگی کا راستہ ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا : "وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ " (سورۃ البقرۃ / 179)

یعنی : اے عقل والو ! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو ۔

اللہ نے مفسدین کی سزا دنیا میں انہیں قتل کرنا، سولی چڑھانا،مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں (ایک جانب کا ہاتھ اور دوسری جانب کا پیر) کاٹنا،جلاو طن کرنا مقرر کیا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے: " إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ " (المائدۃ :33 )

یعنی: جو اللہ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھادیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیے جائیں، یہ تو ہوئی ان کی دنیاوی ذلت اور خواری،اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔

اللہ نے ( یہ بھی ) واضح کیا ہے  کہ ( بسا اوقات ) لوگوں میں ( ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ) جس کی بات آپ کو اچھی لگتی ہے وہی فساد کرنے والے ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ۔ وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرۃ: 204-205) )

یعنی: بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں، اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے،حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے۔جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی او ر نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اوراللہ فسادکو پسند نہیں کرتا ہے ۔

اور یہود اہل فساد ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

" وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا (الاسراء :04)

یعنی:ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کردیا (تھا )کہ تم زمین میں دوبار فساد برپا کروگے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے۔

 اور فرمایا ہے: وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (المائدۃ : 64)

یعنی:اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کی یہ بات کرنے کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ تیرے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے وہ ان میں سے اکثر کو تو سرکشی اور کفر میں اور بڑھا دیتا ہے اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لئے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے۔وہ جب کبھی لڑائی کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو اللہ اسے بجھادیتا ہے۔یہ زمین میں شر و فساد مچاتے پھرتے ہیں اور اللہ فسادیوں سے محبت نہیں کرتا۔

حقیقی مسلم وہ ہے جو لوگوں کی اصلاح کرے جب وہ بگڑ جائیں اور جب لوگ فساد بپا کرئیں۔آپس میں اصلاح کرنا مؤمن کی صفات میں سے ہے۔

عَنْ أَبِى الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّدَقَةِ. قَالُوا بَلَى. قَالَ : صَلاَحُ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِىَ الْحَالِقَةُ " (ترمذی/ 2509 / البانی نے اسے صحیح کہا ہے )

یعنی: ابو درداء(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا آپ کو میں ایسے کام کی خبر نہ دوں جو کہ صیام اور صدقہ کے درجہ سے افضل ہے ؟۔انہوں نے کہا : کیوں نہیں ۔انہوں نے فرمایا:آپس میں اصلاح کرنا ،یقینا آپس میں فساد کرنا ہلاکت کا سبب ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو صالحین اور اصلاح کرنے والا بنائے ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا نہ بنائے ۔

 

واپس