ج۔ نماز کےلئے کپڑوں کا پاک ہونا ضروری ہے ، فقہی اصطلاح میں اسے شرط کے زمرے میں شامل کیا جائے گا نہ کہ واجب کے زمرے میں ۔ کیوں کہ واجبات اور شروط کے درمیان فرق یہ ہے کہ شرط عبادت ( چیز ) کی ہیئت کے اجزاء میں سے نہیں ہوتا ہے جب کہ واجب عبادت ( چیز ) کے اجزاء میں سے ہوتا ہے ، لہذا اگر نسیان کی وجہ سے نماز میں کوئی واجب بھول جائے تو پھر یاد آنے پر سجدہ سہو کرنا ہے جب کہ اس میں ایسا نہیں ہے ، اسی طرح شروط پہلے سے ہی ہوتے ہیں جب کہ ارکان اور واجبات نماز کے دوران ہوتے ہیں اور ارکان و واجبات بدلتے رہتے ہیں جیسے تکبیر تحریمہ پھر قراء ۃ پھر رکوع ۔۔۔ اور جب کہ شروط مستمر رہتے ہيں جیسے ستر کا چھپا رہنا ، وضو کا موجود رہنا وغیرہ ۔۔۔ ان سب کا شروع سے آخر تک برابر رہنا لازمی ہے ۔
جناب حافظ عمران ایوب لاہوری صاحب نے فقہ الحدیث ج 1 ص 343 میں یوں لکھا ہے جس کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے :
" ان دلائل سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا واجب ہے جو شخص ایسی حالت میں نماز پڑھ لے کہ اس کے کپڑوں کو نجاست لگی ہو تو وہ واجب کا تارک ہوگا لیکن اس کی نماز باطل نہیں ہوگی جیسا کہ شرط کے فقدان سے ہوتا ہے کیوں کہ یہ واجب ہے شرط نہیں جیسا کہ ایک حدیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاست لگی جوتیوں سمیت نماز ادا کرلی ، پھر علم ہونے پر دو بارہ نماز نہ پڑھی " لاہوری صاحب کا استدلال یہ ہے کہ اگر یہ شرط ہوتا تو نماز کا اعادہ ( لوٹانا ) بھی لازم ہوجاتا لہذا یہ شرط نہیں ہے بلکہ واجب ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عذر کی وجہ سے معاف ہے اور یہاں پر عذر " معلوم نہ ہونا " ہے ، جیسے اگر کسی نے قبلہ کی صحیح سمت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کسی اور طرف منہ کرکے نماز پڑھنا شروع کی اور اسی اثنا میں کوئی شخص آ پہنچا تو اس نے اس نمازی کی طرف مخاطب ہوکر صحیح سمت کی آواز دی جو نماز ی نے سن لی تو یہاں پر ایسے نمازی کے لئے لازمی ہے کہ نماز ہی کی حالت میں قبلہ کی صحیح سمت کی طرف مڑ جائے ، اس کی پہلی رکعات درست ہوں گی ان کا اعادہ لازمی نہيں ہے ، اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اتجاہ قبلہ شرط ہے نہ کہ واجب -
اسی طرح بعض اوقات ارکان میں بھی ہے کہ اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے رکن ادا نہ ہو تو بھی نماز درست ہے جیسے مریض کا اشاروں سے نماز ادا کرنا جب وہ قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے سے عاجز ہو ، اسی طرح شروط بھی شرعی اعذار سے ساقط ہوتے ہیں جیسے نماز کے لئے وضو شرط ہے تو پانی کے استعمال پر عدم قدرت کے وقت تیمم جائز ہے اور اگر تیمم پر بھی قدرت نہ ہو جیسے کہ اگر دشمن نے جھکڑ کر ہاتھ باندھے ہوں اور نماز کے وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو یہاں بغیر تیمم اشاروں سے حسب قدرت ہی نماز ادا کرے گا ، اسی طرح متعین وقت میں نماز ادا کرنا نماز کی صحت کے لئے بھی شرط ہے ۔ اگر کوئی سو گیا یا بھول گیا اور اسی حالت میں نماز کا وقت ختم ہوگیا اور دوسری نماز کا وقت شروع ہوگیا پھر نیند سے جاگ اٹھا یابھول جانے کے بعد اب یاد آیا تو ایسی صورت میں وہ اسی وقت میں نماز ادا کر لے گا۔
ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب
ہر عمل کا اعتبار نیت پر ہوتا ہے اگر کوئی شخص نفل نماز بہت زیادہ ادا کرتا ہے لیکن فرض نماز کی نیت سے کچھ ادا نہیں کرتا ہے تو نوافل کے ادا کرنے سے فرض ادا نہیں ہوگی ، اسی طرح زکوۃ کا مسئلہ بھی ہے کہ اگر نفلی صدقات کی نیت سے مال خرچ کیا تو اس سے فرض صدقات ( زکوۃ ) ادا نہیں ہوگی ۔
قطعی الثبوت کا مطلب یہ ہے کہ جو قرآن یا متواتر حدیث سے ثابت ہو اور ظني الثبوت کا مطلب یہ ہے کہ جو خبر واحد ( آحاد ) سے ثابت ہو ۔
معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دونوں حجت ہیں, اور قطعی الثبوت کی تخصیص ، یا تقیید یا تنسیخ ظني الثبوت سے کرنا ثابت ہے اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو کہ مفصل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
میں نے ایک علمی مذکرہ ( نوٹ بک ) اصول فقہ (ب ) کے نام سے ایم ایس بی کے طلبہ و طالبات کے لئے تیار کیا ہے، اس ضمن میں اس کی طرف رجوع کرنا مفید رہے گا۔
امت میں یہ متفق اصول ہے کہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی کوئی امر ( حکم ) ہے اس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں اگرچہ اس امر کا صیغہ مردوں کا ہی استعمال ہوا ہو جیسے اللہ تعالی نے بہت ساری آیات میں مذکر صیغہ استعمال کیا ہے جب کہ مذکر و مؤنث دونوں مراد ہیں مثآل کے طور پر :
وضو کرنے کے بارے میں فرمایا : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ ...} ( سورة المائدة / 6)
شراب جوا انصاب و ازلام کی حرمت کے بارے میں فرمایا :{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} ( سورة المائدة / 90)
نماز قائم کرنے کے بارے میں فرمایا :{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} ( سورة الحـج / 77)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بارے میں فرمایا :{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} ( سورة الأحزاب/ 56)
اللہ اور رسول کے آگے بڑنے سے منع کے بارے میں فرمایا :{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} ( سورة الحجرات / 1)
توبہ کرنے کے بارے میں فرمایا :{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا ...} ( سورة التحريم / 8)
ان آیات اور ان کے علاوہ بہت ساری آیات اور احادیث میں مردوں کا صیغہ استعمال ہوا ہے ، مگر خطاب مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے ، اسی طرح بہت سارے احکام ایسے ہی ہیں، البتہ جہاں پر دو میں سے کسی کو مستثنی کیا جاتا ہے تو وہاں پر استثناء کی دلیل ہونی چاہیے ۔
اسی طرح اگر قرآن اور سنت میں کہیں پر کوئی حکم مطلق ( بغیر حدبندی ) ہے اس پر تب تک اسی طرح عمل ہوگا جب تک نہ اس کی قید ( حد بندی ) کی دلیل معلوم ہوجائے ، اور اسی طرح اگر کوئی حکم عام ہے اس پر تب تک اسی طرح عمل ہوگا جب تک نہ اس کی تخصیص کی کوئی دلیل معلوم ہوجائے۔
لہذا اب مذکورہ بالا باتوں کو مد نظر رکھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کہ کیا دونوں کی نماز میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کی نماز میں جو فرق قرآن اور حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ :
1۔ فرض نماز کا ادا کرنا مردوں کے لئے مساجد میں باجماعت ادا کرنا گھروں میں ادا کرنے سے 27 گنا زیادہ افضل ہے جب کہ عورتوں کا گھروں میں نماز ادا کرنا ہی افضل ہے البتہ مسجد میں ادا کرنا جائز ہے
2۔ نماز جمعہ مردوں پر واجب ہے جب کہ عورتوں پر واجب نہیں ہے
3۔ حیض اور نفاس میں عورتوں کو نماز ادا کرا جائز نہیں ہے بلکہ معاف ہے
4۔ مردوں اور عورتوں میں لباس کے اعتبار سے بھی فرق ہے
5۔ مرد عورت کی امامت کرسکتے ہیں جب عورتیں مردوں کی امامت نہیں کر سکتی ۔
6۔ عورتوں کو مردوں کی صفوں کے بعد اپنا صف بنانا لازمی ہے وہ ان کے ساتھ یا ان سے آگے صف نہیں بناسکتی ہیں۔
البتہ قیام ، رکوع ، سجدہ کے طریقوں میں جو فرق بتایا جاتا ہے اس کی کوئی بھی صحیح دلیل موجود نہیں ہے ، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمومی حکم ( مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ) یہ ہے " صلوا کما رأیتموني أصلي " یعنی نماز اسی طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
لہذا جب تخصیص کی کوئی دلیل موجود ہی نہیں ہے تو خود ساختہ باتوں سے کوئی فرق کرنا تشریع ( شریعت سازی ) میں مداخلت ہے جو کہ ایک انسان کے حد اختیار میں ہرگز نہیں ہے۔
ھذا ما عندي و اللہ أعلم بالصواب
یہ کہنا کہ منافقین کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ نماز میں ڈاڑھی یا بالوں میں کھجلتے ہوں گے اس کی دلیل میرے علم میں نہیں ہے ، اس بات پر سوال میں مذکورہ آیت سے استدلال کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔
البتہ منافقین کی علامتوں میں سے یہ علامت ہے کہ جب وہ نماز کے لئے اٹھیں گے تو کہالت اور سستی کی حالت میں اٹھیں گے ۔
اور یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ نماز میں ڈاڑھی یا بالوں میں بلاوجہ کھچلنا جائز نہیں ہے بلکہ بلا عذر بکثرت ایسا کرنے سے نماز باطل ہوسکتی ہے ۔
صدقہ فطر جنس سے ادا کرنا افضل ہے کیوں کہ حدیث کے ظاہر الفاظ میں جنس کا ہی ذکر ہے ، البتہ اگر نقد کی صورت میں ادا کرنے سے مسکین ( مستحق زکاۃ الفطر ) کی مصلحت مد نظر رکھی جائے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے
غزو فکری کی تعریف یوں ہے :
کسی امت کو مخصوص طریقوں سے اس طرح مغلوب کرنا کہ اس کی اندرونی طاقت ، بنیادیں ، تہذیب ، تمدن ، کلچر ، عقیدہ ، مذہبی شناخت ختم ہوجائے ۔
غزو فکری میں لوگوں کی عقلوں پر اس طرح وار کیا جاتا ہے کہ لوگ اس سے راضی رہتے ہیں اور اس طرح سے ان کی تہذیب ، تمدن ، کلچر ، اور خاص کر عقیدہ اور مذہبی شناخت ختم کر دی جاتی ہے ۔
اس کے اہداف سے اس کی خطرناک صورت واضح ہوجاتی ہے لہذا استفادہ کی غرض سے اس کے چند اہداف ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
1۔ اسلامی ممالک اس طاقت کے سامنے جھک جائیں جو ان کے مخالف ہیں ، اور یہ طاقت اس وقت کچھ بڑے ممالک کی شکل میں ہے جو ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں اور دفاعی تبادل مختلف طریقوں سے کرتے ہیں ۔
2۔ مسلم ممالک خصوصًا اور دیگر پسماندہ ممالک عمومًا ، ترقی پذیر ممالک کے ماتحت رہیں ، اگر چہ وہ نہ بھی چاہتے ہوں ، تاکہ اس روح کو ختم کیا جائے جو ان کو ترقی یافتہ بنا سکے۔
3۔ بغیر کسی تحقیق وتدبر وتفکر کے اسلامی ممالک ترقی پذیر ممالک کے افکار کو بنیاد بنائیں ، تاکہ عالم اسلام کی شناخت ختم ہوجائے اور مستقبل تباہ ہوجائے۔
4۔ امت مسلمہ تعلیم وتربیت میں ترقی یافتہ ممالک کے مناہج کو اپنائے ، اور انہیں اپنے بچوں اور نسلوں پر نافذ کرے تاکہ ان کی فکر تبدیل ہوجائے اور ان کی عقل پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ اس وقت میدانی صورت اسی طرح بن گئی ہے کہ پہلے پہلے ان مناہج سے متاثر لوگوں پر حقیقت مخفی رہتی ہے پھر وہ اپنے آپ کو حق پر گمان کرنے لگتے ہیں پھر اپنے گمان کی تائید کے لئے کھڑے ہوتے ہیں پھر اسی کی طرف دوسروں کو بلاتے ہیں۔۔۔
5۔ یہ دشمن امت مسلمہ اور اس کے ماضی کی تاریخ اور اپنے اسلاف کی سیرت کے درمیان حائل ہوجائیں، اور اس کا رخ ان بڑے ممالک کی تاریخ اور قائدین کی طرف موڑا جائے۔
6۔ غالب طاقتوں کی زبان مغلوب لوگوں کی زبان پر غالب آجائے اور اس مغلوب زبان کے خلاف عامی (بازاری) زبان اور علاقائی لہجات کی ترویج سے جنگ کی جائے ۔ زبان ہی کے ذریعہ سے انسان غور وفکر کرتا ہے اور جب مادری زبان تبدیل ہوجاتی ہے تو فکر بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔
7۔ مفتوح قوم فاتح قوم کے اخلاق اور عادات ، اور تقا لید قبول کرلے ۔
8۔ اسلامی سابقہ تاریخ کے ضعیف پہلوؤں کو اجاگر کرنا خاص کر ان گنے چنے سیاسی اختلافی واقعات کو ترویج دینا جو سابقہ زمانوں میں مسلمانوں کے مابین وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔ اور باطنی تحریکوں کو مزین کر کے ایسے اچھے انداز میں متعارف کرایا جارہا ہے کہ جیسے یہی اعلی فکر کے حامل رہی ہوں۔
9۔ امت مسلمہ کی تصویر اس طرح کھینچنا کہ اسلام پسماندگی کا سبب ہے اور یہ تہذیب وتمدن کو ترقی دینے سے قاصر ہے اور سابقہ زمانوں میں امت اسلامیہ کو دیگر تہذیبوں پر کوئی فوقیت نہیں تھی۔
10۔ اسلام کی شناخت اور اس کی بلند اقدار کو کمزور کرنا ، اور اس کے مقابلے میں مغربی شناخت کو فوقیت وعظمت دینا ۔ اور اسلام پسندی کو قدامت پرستی اور دقیانوسیت بتایا جارہا۔
11۔ مسلمانوں میں ان کی تہذیبی سرمائے کی قدرو قیمت میں یہ کہہ کر شکوک پیدا کرنا ، کہ اسلامی تہذیب وتمدن رومیوں سے نقل کی گئی ہے ، عربوں اور مسلمانوں نے صرف ان کی تہذیب کے آثار اور فلسفہ سے صرف نقل اتاری ہے ۔
12۔ مسلمانوں کے درمیان اس اسلامی بھائی چارے کو قومیت کے نعر ہ سے کمزور کرنا جو بھائی چارہ ان کے دور دراز شہروں میں پایا جاتا تھا، اور مسلم اقوام کے درمیان اختلاف کو اچھا لا گیا۔
13۔ مسلمانوں کے دلوں سے اسلامی عقیدہ نکالنا اورانہیں اسلام کو اپنانے سے باز رکھنا ۔
14۔ عقل اور دل کو بنیادی اقدار سے خالی کرنا ، جو ایمان باللہ سے ماخوذ ہیں ، ان دلوں کو خالی کرنا اور ان میں غزو فکری کا زہر صحافت ، ادبی لٹریچر ، ڈراموں ، فلموں ، کلچرل پروگراموں ، لباس اور غیر اسلامی دیگر رسومات کے ذریعے بھر دینا ۔
عربی زبان میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ، ایم ایس بی کے سیلبس کے مطابق میں نے بھی ایک علمی مذکرہ تیار کیا ہے، اس سے بھی مزید استفادہ کیا جاسکتا ہے
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جو کہ کئی زبانوں میں لکھی گئی ہیں ، عربی میں لکھی گئی بعض کتابوں کا ترجمہ اردو میں بھی کیا گیا ہے اور کچھ اردو ہی میں لکھی گئی ہیں اس طرح سے اس وقت اردو میں بہت سی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں جیسے :
1۔ سیرت ابن ہشام ( ابن ہشام رحمہ اللہ )
2۔ رحمۃ للعالمین ( سید سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ )
3۔ الرحیق المختوم ( صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ )
4۔ سیرت نبوی ( ڈاکٹر مہدی رزق اللہ احمد )
وغیرہ
البتہ آخر الذکر کتاب جو کہ مہدی رزق اللہ کی تالیف ہے وہ صحت کے اعتبار سے سب سے اچھی کتاب ہے کیوں کہ اس نے صحت اور ضعف کی تحقیق کی ہے ۔
ہر ایسی چیز پر زکاۃ واجب ہے جسے تجارت کی غرض سے رکھا گیا ہو ، لہذااگر زمین بھی تجارت کی غرض سے رکھی گئی ہو تو اس پر بھی ان عمومی دلائل کی وجہ سے زکاۃ واجب ہے جن سے دیگر تجارتی سامان ( عروض التجارۃ ) کی زکاۃ واجب ہوجاتی ہے
سعودی فتوی کمیٹی نے بھی اسی طرح کہا ہے ملاحظہ ہو فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج 5 ص 235
ضعیف حدیث قابل عمل نہیں ہے ۔ یہ فضائل اعمال ، احکام اور عقائد سب میں قابل حجت نہیں ہے